جرمنی میں ناخواندگی کی شرح میں مسلسل اضافہ
8 ستمبر 2010اسکول کی سطح کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود یہ افراد لکھنے اور پڑھنے کے عمل سے نابلد ہوتے ہیں۔ رالف کرامپ کو کسی میگزین میں چھپے دو چار الفاظ پڑھنے میں بہت زیادہ دقت ہوتی ہے۔ چند الفاظ کو ملا کر ایک مکمل جملہ بنانے کے عمل کے دوران وہ لمبے لمبے وقفےکرتا ہے۔ اس طرح اسے ان پڑھ یا ناخواندہ کہا جاسکتا ہے۔ اس کا تعلق ایک ایسے ملک سے ہے، جہاں کار وبار زندگی چلانے کے لئے لکھنے پڑھنے کی صلاحیت انتہائی ضروری ہے۔ سالوں رالف نے کوشش کی کہ اُس کی یہ کمزوری اور راز اُس کے دوستوں اور ہمکاروں سے چھپا رہے۔ وہ کہتا ہے ’ انسان کو ایسی صورت میں ہمیشہ خود کو لوگوں کے سامنے بدل کر پیش کرنا ہوتا ہے۔ کبھی بھی اپنی کمزوریوں کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔ میں اپنی تمام عمر اس خوف سے دوچار رہا کہ کہیں میرا یہ راز فاش نہ ہو جائے‘۔
جرمنی میں ناخواندہ یا ان پڑھ لوگوں کے لئے روز مرہ زندگی گزرانا بہت ہی مشکل ہے۔ اشیاء خوردونوش کے پیکٹس ہوں، مکان کا تحریری معاہدہ ہو یا پبلک ٹرانسپورٹ کے ٹکٹ کے لئے جگہ جگہ نصب آٹومیٹک مشینیں، اگر کسی کو لکھنا پڑھنا نہ آتا ہو تو اُسے جگہ جگہ ان دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رالف اس صورتحال میں تبدیلی لانا چاہتا ہے اور اس لئے گزشتہ ایک سال سے اپنی زندگی میں پہلی بارناخواندہ افراد کا ایک کورس کر رہا ہے۔ جہاں ایسے حوصلہ افزا اکا دُکا کیسس دیکھنے میں آتے ہیں وہاں ہزاروں ایسے ناخواندہ افراد بھی جرمن معاشرے میں موجود ہیں، جو اپنی یہ کمزوری دور کرنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں۔
لکھنے پڑھنے میں کمزور افراد کی تعداد میں اضافہ
ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں 4 ملین ایسے افراد ہیں جن کی لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیتیں کافی نہیں ہیں۔ تاہم ناخواندہ افراد کی تعداد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ جرمنی میں ناخواندگی کی کسوٹی یا جانچ کا معیار یا اصول طے شدہ نہیں ہے۔ اس لئے ان پڑھ افراد کی شرح کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم پہلی بار ناخواندہ افراد کی حتمی تعداد کے بارے میں پتا چلانے کے لئے ملک گیر سطح پر ایک مطالعاتی سروے متعارف کروایا گیا ہے، جس کے نتائج آئندہ سال فروری میں سامنے آئیں گے۔
ناخواندہ افراد اسکول کے نظام میں ضم نہیں ہو پاتے
طالبعلموں کی صلاحیتوں اور کار کردگی کے PISA ٹیسٹ کے مطابق جرمن میں پندرہ سالہ عمر کے نوجوانوں میں سے 14 فیصد سادہ اور معمولی ترین متن لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہر چوتھا طالبعلم جو اسکول سے نکلتا ہے صحیح طریقے سے لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسکول سے نکلنے والے 20 ہزار طالبعلم ہر سال عوامی اسکولوں کا رُخ کرتےہیں، جہاں وہ لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان عوامی اسکولوں میں دراصل جرمن زبان کے ساتھ ساتھ متعدد غیر ملکی زبانوں سمیت مختلف ہُنر بھی سکھائے جاتے ہیں۔ عوامی اسکولوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں جرمن باشندوں سمیت جرمنی میں رہنے والے ہر رنگ و نسل اور ہر عمر سے تعلق رکھنے والے حسب ضرورت اور شوق کورسز سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ان عوامی اسکولوں جسے جرمن زبان میں ’فولکس ہوخ شُولے‘ کہا جاتا ہے میں تارکین وطن ناخواندہ افراد کے لئے معاشرے میں انضمام کا ایک خاص کورس بھی متعارف کرایا گیا ہے، جس میں ہر سال تقریباً 2 ہزار تارکین وطن حصہ لیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کی متعدد اسکیم کے باوجود جرمنی میں ناخواندہ افراد کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہو رہی ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: کشور مُصطفیٰ