جرمنی میں پولٹری فیڈ میں ڈی آکسین کی موجودگی ، سینکٹروں فارمز بند
5 جنوری 2011اس تناظر میں جرمن عوام کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ انڈے اور مرغی کا گوشت خریدتے وقت خاص احتیاط برتیں۔ ڈی آکسین سے متاثرہ مزید اشیائے خورد و نوش کی فہرست جلد ہی جاری کر دی جائے گی۔
برلن حکام کے مطابق اب تک کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ برس کے اختتام پر جانوروں کے لئے تقریباً تین ہزار ٹن خوراک تیار کی گئی، جو ڈی آکسین سے آلودہ تھی۔ حکام اس اسکینڈل کو سلجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور مختلف پولٹری فارمز پر چھاپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ گزشتہ شب صرف نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں 140 فارمز بند کر دیے گئے۔
جرمن صوبے لوئر سیکسنی میں وزارت زراعت کے اسٹیٹ سیکرٹری فریڈرش اوٹو رِپکے کہتے ہیں کہ معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔ ان کے بقول بات اس وقت پہنچنے والے نقصان کے ازالے کی ہے۔ اس وجہ سے وہ امید کرتے ہیں کہ جلد ہی اصل قصور وار کو تلاش کر لیا جائے گا۔ فریڈرش اوٹو رِپکے مزید کہتے ہیں کہ صحت کے لیے نقصان دہ یہ خوراک 12 نومبر اور23 دسمبر 2010 ء کے درمیان تیار کی گئی۔ ڈی آکسین اسکینڈل میں اب تک کی جانے والی تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ چار جرمن صوبوں کی کوئی پچیس فیکٹریوں تک یہ خطرناک کیمیکل پہنچا ہے۔
جرمنی میں یہ اسکینڈل اس وقت سامنے آیا، جب شمالی جرمن صوبے شلیزوک ہولشٹائن میں قائم کمپنیHarles & Jentzsch سے ایک بڑی غلطی ہو گئی۔ اس کمپنی نے جانوروں کی خوراک میں استعمال کی جانے والی چکنائی میں وہ تیل ملا دیا، جو بائیو فیول میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کیمیکلز ملا یہ تیل بڑی صنعتوں کو فراہم کیا جاتا ہے، خاص طور پرکاغذ بنانے کی فیکٹریوں کو۔ Harles & Jentzsch اپنی غلطی تسلیم کر چکی ہے۔ کمپنی کا موقف ہے کہ یہ سب کچھ انسانی غفلت کا نتیجہ ہے۔
جرمنی میں صارفین کے تحفظ کی تنظیم ’فوڈ واچ‘ کی ترجمان کرسٹیانے گروس کا کہنا ہےکہ جانوروں کی خوراک کی مستقل بنیادوں پر نگرانی کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہرکچھ عرصے بعد خوراک میں ڈی آکسین کی ملاوٹ کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آخر کیوں اس کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات نہیں اٹھائے جاتے؟ حالانکہ یہ بہت آسان کام ہے۔
اسی طرح صارفین بھی برلن حکام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس حوالےسے یورپی سطح پرکوئی منصوبہ تیار کیا جائے۔ جرمن حکام کے مطابق اس دوران جن فارمزکو بند کیا گیا تھا، اب وہ اپنی مصنوعات پھر سے فروخت کر سکتے ہیں۔ تاہم اس کے لئے انہیں لیباریٹری کی سند پیش کرنا ہو گی اور یہ اخراجات انہیں خود ہی برداشت کرنا ہوں گے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: امجد علی