جرمنی کا مسلم چانسلر؟ ’ہاں، کیوں نہیں‘: اس کے بعد بحث شروع
7 مارچ 2019اس بحث کی ابتدا اس سوال سے ہوئی کہ کیا یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں، جہاں مسلمان سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں اور ان کی مجموعی تعداد کئی ملین بنتی ہے، کبھی کوئی مسلمان سیاستدان بھی سی ڈی یو کا سربراہ اور پھر وفاقی چانسلر بن سکے گا؟
اس بحث کا نقطہ آغاز میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کے پارلیمانی حزب کے سربراہ کا سر راہے دیا جانے والا یہ بیان تھا کہ مستقبل میں کوئی مسلمان مرد یا خاتون شہری بھی سی ڈی یو کا سربراہ بننے کے بعد سربراہ حکومت کے عہدے پر فائز ہو سکتا ہے۔ یہ بات کہنے والے قدامت پسند سیاستدان رالف برِنک ہاؤس تھے۔
ان سے جرمن میڈیا ادارے ’آئیڈیا‘ کی طرف سے یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا 2030ء میں کوئی مسلمان بھی اس پارٹی کا رہنما اور یوں شاید جرمن چانسلر بن سکتا ہے۔ اس پر رالف برِنک ہاؤس کا جواب تھا، ’’ہاں، کیوں نہیں! اگر وہ شہری ایک اچھا سیاستدان ہو، اور ہماری اقدار اور سیاسی نظریات کی نمائندگی بھی کرتا ہو، تو کیوں نہیں۔‘‘
برِنک ہاؤس کا یہ انٹرویو فروری کے اواخر میں لیا گیا تھا، لیکن اس پر ایک بھرپور بحث کل چھ مارچ بدھ کے روز اس وقت شروع ہو گئی، جب کثیرالاشاعت جرمن روزنامے ’بلڈ‘ نے اس انٹرویو میں کہی گئی باتوں کو اپنی اشاعت میں جگہ دی۔
اس کے بعد سی ڈی یو میں جیسے داخلی طور پر ایک لفظی جنگ شروع ہو گئی۔ ایک رکن پارلیمان نے کہا کہ وہ تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی سیاستدان بالواسطہ طور پر بھی ایسی کوئی تجویز دے سکتا ہے۔
’ناقابل یقین بیان‘
جرمنی کے شمال مشرقی صوبے میکلنبرگ بالائی پومیرانیا میں میرکل کی کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے علاقائی رہنما وِنسینٹ کوکرٹ نے اس بارے میں روزنامہ ’بلڈ‘ کو بتایا، ’’مجھےتو یقین ہی نہیں آ رہا کہ رالف برِنک ہاؤس نے یہ کہا ہے۔‘‘
اسی طرح ملکی سطح پر سی ڈی یو کی مجلس عاملہ کی رکن الزبتھ موچمان نے بھی برِنک ہاؤس کے اس موقف سے اختلاف کیا کہ ایک مذہب کے طور پر اسلام کرسچین ڈیموکریٹک یونین کی پارٹی اقدار سے ہم آہنگ ہے۔ موچمان نے کہا، ’’ہماری اور اسلامی اقدار میں بہت فرق ہے، مثال کے طور پر اگر صرف مردوں اور خواتین کے مساوی حقوق ہی کی بات کی جائے تو بھی۔‘‘
رالف برِنک ہاؤس نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا، ’’جب کسی سیاستدان کی قائدانہ صلاحیتوں سے متعلق کوئی پارٹی فیصلہ کیا جاتا ہے، تو کسی بھی انسان کے مذہب سے زیادہ اہم اس کی اقدار ہوتی ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ برِنک ہاؤس نے یہ بھی کہا تھا، ’’سی ڈی یو کوئی مذہبی برادری نہیں ہے۔ اور یہی وہ بات ہے، جو ہمیں کیتھولک کلیسا سے مختلف بناتی ہے۔‘‘
’سی ڈی یو کرسچین ہے‘
اس کے جواب میں برِنک ہاؤس پر تنقید کرنے والے چند پارٹی سیاستدانوں نے یہ دلیل دی کہ اس سیاسی جماعت کے تو نام پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔ اس جماعت کے ایک رکن پارلیمان ایبرہارڈ گِینگر نے روزنامہ ’بلڈ‘ کو بتایا، ’’کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے نام ہی میں، سی ڈی یو میں سے ’سی‘ کا مطلب کرسچین ہے۔ اس پارٹی کے نام کا یہ حصہ محض اتفاقاﹰ ہی طے نہیں ہوا تھا۔‘‘
ایبرہارڈ گِینگر نے مزید کہا کہ چاہے وہ مرد یا خاتون کسی بھی جماعت سے تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیت ہو، لیکن جرمنی میں کوئی مسلمان کبھی چانسلر نہیں بن سکے گا۔ انہوں نے اس بات کے حق میں دلیل یہ دی کہ چانسلر کے مسلمان ہونے کا مطلب یہ ہو گا کہ جرمن آبادی میں مسلمان اکثریت میں ہوں گے اور ایسا تو نہیں ہے۔‘‘
’توانائی کا ضیاع‘
انگیلا میرکل کی پارٹی کے کئی دیگر رہنماؤں نے اس بحث اور ان کے بقول ’توانائی کے ضیاع‘ کو ’قطعی بے عقلی‘ کا نام دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بارے میں فی زمانہ بحث بالکل ’جہالت‘ ہے۔
لیکن اسی دوران شمالی جرمن صوبے شلیسوگ ہولشٹائن کی وزیر تعلیم کارِن پرِین نے بھی یہ کہہ دیا کہ وہ یہ بات نہیں سمجھ سکتیں کہ جرمنی میں کسی پارٹی کا سربراہ یا چانسلر بننے کی اہلیت کے لیے مسیحی ہونا کیوں ضروری ہے؟
م م / ش ح / ڈی پی اے، کے این اے