1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کی آئندہ خارجہ پالیسی کیا ہو گی!

نِینا وَیرک ہوئیزر / امجد علی26 نومبر 2013

اب تک جرمنی کی خارجہ پالیسی کی تشکیل کا کام بڑی حد تک خاتون چانسلر انگیلا میرکل ہی کے ہاتھوں میں رہا ہے، جس کا مطلب ہے، موجودہ پالیسیوں کا تسلسل۔ نئے وزیر خارجہ کو دیکھنا ہو گا کہ کہاں وہ اپنی الگ پہچان کروا سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1AOpF
انگیلا میرکل ہی وفاقی چانسلر کے طور پر آئندہ وفاقی حکومت کی بھی قیادت کریں گی اور بڑی حد تک ملک کی خارجہ پالیسی کا رخ بھی متعین کریں گی
انگیلا میرکل ہی وفاقی چانسلر کے طور پر آئندہ وفاقی حکومت کی بھی قیادت کریں گی اور بڑی حد تک ملک کی خارجہ پالیسی کا رخ بھی متعین کریں گیتصویر: picture-alliance/dpa

موجودہ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے محض ایک قائم مقام کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اُنہیں یہ فرائض محض تب تک انجام دینا ہیں، جب تک کہ کوئی نئی جرمن حکومت تشکیل نہیں پا جاتی۔ جنیوا میں ایران کے ایٹمی پروگرام پر ہونے والے مذاکرات ہوں یا پھر امریکی عوامی نمائندوں کے ساتھ امریکی خفیہ اداروں کی طرف سے کی جانے والی جاسوسی پر برلن میں ہونے والی بات چیت، آج کل گیڈو ویسٹر ویلے خاصے مصروف ہیں۔ دسمبر میں ویسٹر ویلے جب اپنا دفتر خالی کریں گے تو اس احساس کے ساتھ کریں گے کہ اُن کے بعد آنے والے وزیر خارجہ کا تعلق خواہ مخلوط حکومت کی کسی بھی جماعت سے ہوا، خارجہ پالیسی میں بہرحال کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہو گی۔

اب گیڈو ویسٹر ویلے محض ایک قائم مقام وزیر خارجہ کے طور پر کام کر رہے ہیں
اب گیڈو ویسٹر ویلے محض ایک قائم مقام وزیر خارجہ کے طور پر کام کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

حقیقت بھی یہ ہے کہ مخلوط حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں جاری مذاکرات کے دوران ’دفاع اور خارجہ پالیسیوں‘ کی ورکنگ کمیٹی نے مقابلتاً بڑی تیزی کے ساتھ اور کسی کھلے تنازعے کے بغیر اپنے نتائج کو تحریری شکل دے دی ہے۔

ویسٹر ویلے نے 2009ء میں وزیر خارجہ بنتے وقت مخلوط حکومت کی تشکیل کے معاہدے میں یہ نکتہ بھی لکھوایا تھا کہ امریکی حکومت کو جرمنی میں نصب ایٹمی ہتھیار ہٹانے کا قائل کیا جائے گا۔ یہ ہتھیار اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ نئی جرمن حکومت بھی اس موضوع کو نہیں چھیڑنا چاہے گی۔

اب تک کے وزیر خارجہ ویسٹر ویلے فوجی مشنوں کے سلسلے میں محتاط طرزِ عمل اختیار کرنے کے حامی رہے تاہم آنے والی جرمن حکومت ’مستقبل کی فوجی کارروائیوں کے لیے تیار‘ رہنا چاہتی ہے۔

نئے ممکنہ وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر پہلے بھی انگیلا میرکل کی قیادت میں وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور دونوں کے درمیان اشتراکِ عمل کو مثالی قرار دیا جاتا ہے
نئے ممکنہ وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر پہلے بھی انگیلا میرکل کی قیادت میں وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور دونوں کے درمیان اشتراکِ عمل کو مثالی قرار دیا جاتا ہےتصویر: Eric Feferberg/AFP/Getty Images

نئی جرمن مخلوط حکومت کی تشکیل کے معاہدے کے مسودے میں فرانس اور پولینڈ کو اہم ہمسایہ ممالک قرار دیا گیا ہے جبکہ ’جرمنی کی سلامتی اور آزادی کے سلسلے میں امریکا کو مرکزی اہمیت کے حامل ملک کا درجہ‘ دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ جاسوسی کے اسکینڈل کی وجہ سے مجروح ہونے والا اعتماد پھر سے بحال ہونا چاہیے۔ یورپی یونین اور امریکا کے درمیان فری ٹریڈ زون کو مستقبل کا اہم ترین منصوبہ قرار دیا گیا ہے۔ روس کے ساتھ شراکت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ماسکو حکومت کو روس میں اقلیتوں اور اپوزیشن کے ساتھ کوئی بھی سلوک کرتے ہوئے آئینی، قانونی اور جمہوری معیارات کا خیال رکھنا ہو گا۔

اس مسودے میں چین اور بھارت کو ایسے ’اسٹریٹیجک پارٹنر‘ قرار دیا گیا ہے، جن کے ساتھ اقتصادی تعاون مزید بڑھایا جائے گا۔ افریقہ کو جرمن امداد کے ذریعے اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنے علاقائی مسائل خود حل کر سکے۔ مزید یہ کہ جرمنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کا حقدار ہے لیکن پہلے اس عالمی ادارے کے ڈھانچے میں اصلاحات متعارف کروانا ہوں گی۔

جہاں ماضی میں جرمنی میں مخلوط حکومتوں کی تشکیل کے وقت وزیر خارجہ کے عہدے کو زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا، وہاں آج کل کے حالات میں یہ حیثیت وزیر خزانہ کو حاصل ہو چکی ہے۔ آئندہ جرمن وزیر خارجہ کے طور پر 57 سالہ فرانک والٹر شٹائن مائر کا نام بھی لیا جا رہا ہے، جو 2005ء سے لے کر 2009ء تک بھی اس عہدے پر کام کر چکے ہیں۔