جرمنی کی اسلام کانفرنس
20 اپریل 2012جرمنی ميں گھريلو تشدد اور جبری شادی جرم سمجھے جاتے ہيں۔ کل برلن ميں ہونے والی اسلام کانفرنس کے شرکاء نے اس سے اتفاق کيا کہ گھريلو تشدد اور جبری شادی شخصی اور خود مختاری کے حقوق اور جسمانی تحفظ کے حق ميں شديد مداخلت ہے۔
اسلام کانفرنس ميں برابر کے حقوق کو ايک اختتامی اعلاميے ميں ٹھوس شکل دی گئی۔ معاشرتی انضمام کی وزير مملکت ماريا بوہمر نے کانفرنس کے اختتامی اعلاميے کی تعريف کرتے ہوئے کہا: ’’اس سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم گھريلو تشدد نہيں چاہتے اور نہ ہی جبری شاديوں کو۔ مسلم انجمنوں کی طرف سے اس کے واضح اظہار کو ميں ايک بڑی پيش رفت اور ہمارے ملک ميں مسلمان خواتين کے لنے ايک بہت اچھا موقع سمجھتی ہوں۔‘‘
وفاقی وزير داخلہ ہنس پيٹر فريڈرش نے کہا کہ اس اعلاميے کی بنيادی سوچ کو واضح بنانے کی ضرورت ہے: ’’گھريلو تشدد اور جبری شادياں مذہبی تعليمات کا اثر نہيں بلکہ مختلف آبائی ممالک کے رسم و رواج اور قبائلی خاندانی ڈھانچوں کا نتيجہ ہيں اور ان کا مذہب اور اسلام سے کوئی تعلق نہيں ہے۔ ‘‘
وزير داخلہ نے کہا کہ اسلام کانفرنس ميں انتہا پسندی اور سلفی نظريات پر بھی بحث کی گئی۔
معاشرتی انضمام کی وزير مملکت ماريا بوہمر نے کہا کہ وہ اس پر مشکور ہيں کہ مسلم انجمنوں نے سلفی طرز فکر کی اتنی واضح طور پر مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم تنظيميں يہ محسوس کر رہی ہيں کہ انہيں مسلم نوجوانوں پر زيادہ توجہ دينا ہو گی تاکہ وہ سلفيوں کے پيچھے نہ چليں۔
جرمنی کی ترک مسلم برادری کے چيئر مين کنعان کولات نے کہا کہ سلفيوں پر بحث کو ضرورت سے زيادہ اہميت نہيں دی جانا چاہيے۔ مسلم انجمنوں نے سن 2009 ہی ميں نہ صرف سلفيوں بلکہ دوسرے اسلامی گروپوں کے بارے ميں بھی ايک مشترکہ اعلان جاری کيا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر يہ گروپ تشدد کی بات کرتے ہيں تو انہيں ممنوع ہونا چاہيے اور اُن کے تصورات ہمارے تصورات نہيں ہيں۔
وفاقی وزير داخلہ فريڈرش نے کہا کہ اسلام دشمنی پر بھی توجہ دينا ہو گی اور مسلمانوں ميں پائی جانے والی يہود دشمنی پر بھی غور ضروری ہے۔ اسلام دشمنی کا موضوع يقيناً مرکزی اہميت حاصل کرے گا۔
وزير مملکت ماريا بوہمر نے کہا کہ اس کانفرنس سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنی ميں مسلمان اورغير مسلم آپس ميں مل جل کر آگے بڑھ رہے ہيں۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے ہو سکتا ہے ليکن اس پر بات ہونا چاہيے۔
S.Ripperger/K.Dahmann/sas/ai