جرمنی کی جانب سے کابل حملے کی مذمت
30 اکتوبر 2011برلن حکومت کے ترجمان نے ایک اعلامیے میں کہا: ’’وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس کے فوجیوں پر حملے کی شدید مذمت کی ہے۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا: ’’جرمنی اور اس کے اتحادی سکیورٹی ذمے داریاں مقامی فورسز کے سپرد کرنے کا کام جاری رکھیں گے۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان میں مفاہمت کے مشکل کام کی معاونت بھی جاری رہے گی۔‘‘
ہفتے کو کابل کی ایک مصروف سڑک پر ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی نیٹو کی بس سے ٹکرا دی۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق طالبان کے ترجمان نے کابل حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ بمبار نے سات سو کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا۔
یہ حملہ ہفتے کو کابل میں اعلیٰ افغان اور مغربی حکام کے درمیان ہونے والی ملاقات کے چند گھنٹے بعد ہوا، جس میں انہوں نے افغانستان کے چونتیس میں سے سترہ صوبوں میں سکیورٹی ذمہ داریاں مقامی فورسز کو سونپنے کے دوسرے مرحلے پر بات چیت کی۔
نیٹو کے مطابق اس حملے میں اس کے پانچ فوجی اور اس کے لیے کام کرنے والے آٹھ سویلین کانٹریکٹر ہلاک ہوئے۔ اے پی کے مطابق امریکی محکمہ دفاع کے ایک اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ تمام تیرہ غیرملکی امریکی تھے۔
تاہم کینیڈا کے دفاعی ترجمان لیفٹیننٹ کرنل کرسچین لیمے نے اے پی کو بتایا کہ مرنے والے فوجیوں میں ایک کا تعلق کینیڈا سے تھا۔ افغان وزارت داخلہ کے مطابق ہفتے کے کابل حملے میں دو بچوں سمیت چار افغان شہری بھی ہلاک ہوئے۔
ہفتے ہی کو افغانستان کے جنوبی صوبے ارزگان میں افغان فوج کے یونیفارم میں ملبوس ایک حملہ آور نے تین آسٹریلوی فوجیوں اور ان کے مترجم کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ افغان وزارت دفاع کے مطابق یہ پتہ چلانے کے لیے تفتیش جاری ہے کہ حملہ آور فوجی تھا، یا اس نے محض فوجی کا رُوپ دھار رکھا تھا۔
کنٹر میں بھی ہفتے ہی کو ایک نوعمر لڑکی نے افغان انٹیلیجنس دفاتر پر حملے کی کوشش میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ پولیس کے مطابق اس موقع پر متعدد انٹیلیجنس اہلکار زخمی ہوئے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: افسر اعوان