جرمن امن انعام بیلا روس کی مصنفہ کے نام
14 اکتوبر 2013الکسی وچ کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف مطالعہ رہا ہے۔ وہ اُس نسل سے تعلق رکھتی ہیں جس کی تربیت میں کتابوں کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ یہ انہوں نے خود ایک بار اپنی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا۔ الکسی وچ کی زندگی کا عکس اُن کی تازہ ترین کتاب ’سیکنڈ ہینڈ سائیٹ‘ یا ’سیکنڈ ہینڈ وقت‘ میں نظر آتا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے ایسے انسانوں کی حالات زندگی بیان کیے ہیں، جن کے خواب شکست و ریخت سے عبارت سابق سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی چکنا چور ہوئے اور یوں اُن کی زندگیاں بھی ریزہ ریزہ ہو گئیں۔ الکسی کی نسل سے تعلق رکھنے والوں کے لیے کتابوں کی کیا اہمیت تھی، اس کا اندازہ مغربی معاشروں میں کم ہی انسانوں کو ہو سکتا ہے۔ الکسی اُس وقت کو یاد کرتی ہیں، جب اُن کے معاشرے میں کتابوں کا مطالعہ روز مرہ زندگی کا ایک اہم ترین جزو ہوا کرتا تھا۔ جب معروف شعراء کے بارے میں بحث و مباحثے کھانے کی میز پر ہوا کرتے تھے۔ باورچی خانوں میں کھانا پکانے کے دوران لوگوں کے ہاتھوں میں ناول ہوا کرتے تھے۔ سویتلانا الکسی وچ نہایت دُکھ کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہیں کہ وہ دور سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا:’اب الفاظ کی کوئی قیمت باقی نہیں رہی ہے‘۔
کتاب میلے میں شائقین کی ریکارڈ شرکت
فرینکفرٹ کتاب میلے میں شائقین کی تعداد دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ میلے کی کشش ادب سے کوئی شغف نہ رکھنے والے افراد کو بھی اپنی جانب کھینچ لاتی ہے۔ اس بار اس عالمی کتب میلے کے دوران مختلف تقاریب اور پروگراموں کی تعداد نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اس بار ان تقاریب کی تعداد ساڑھے تین ہزار تھی، قریب 700 روزانہ۔ ان رنگا رنگ پروگراموں سے محظوظ ہونے والے شائقین کے لیے کافی سے زیادہ مواقع میسر تھے، کتب میلے کے بُخار میں مبتلا ہونے کے۔
اس بار کے میلے کی ایک خاص بات گول گیند کی شکل کے وہ خیمے تھے، جن میں بچوں اور نوجوانوں کے ادب کے شہ پارے رکھے گئے تھے۔ ان میں بچوں اور نوجوانوں کی دلچسپی کی حامل تصنیفات پڑھ کرسنائی جا رہی تھیں اور میلے کے آخری روز تک ان خیموں کے باہر لمبی قطاروں میں لگے افراد ان پروگراموں سے لطف اندوز ہونے کے متمنی نظر آ رہے تھے۔
امن انعام کی تقریب کتاب میلے کا نقطہ عروج
فرینکفرٹ کتب میلے میں ایک طرف تو ہر سال ادب کی دنیا کے نئے رجحانات اور خیالات کو نت نئے انداز سے پیش کیا جاتا ہے، دوسری جانب اس عالمی میلے کا اختتام جرمن بُک ڈیلرز ایسوسی ایشن کے امن انعام کی تقریب تقسیم سے ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ 1950ء سے شروع ہوا۔ تب سے ہر سال یہ انعام حاصل کرنے والی اہم ادبی شخصیت اس موقع پر ایک تقریر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ مفکرین، ادباء اور دانشوروں کے لیے یہ ایک اہم موقع ہوتا ہے ایک دوسرے کے ساتھ اور اس انعام کو حاصل کرنے والی شخصیات کے ساتھ نزاعی بحث و مباحثے کا۔ ان مباحثوں میں جرات مندانہ ببانات بھی سامنے آتے ہیں۔
الکسی وچ ایک صحافی اور مصنفہ کی حیثیت سےنہایت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بارہا سویت یونین کی تاریخ کی دکھتی رگوں کو چھیڑ چُکی ہیں۔ ان کی پیدائش 1948ء میں یوکرائن میں ہوئی۔ انہوں نے بیلاروس میں پرورش پائی، ایک ایسے ملک میں، جس کی تاریخ تباہی و بربادی اورآبادی میں مسلسل کمی کا شکار رہی ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں ایک تہائی آبادی ختم ہو چُکی تھی۔ سویتلانا الکسی وچ کو امسالہ امن انعام دیتے ہوئے جرمن مؤرخ کارل شلوگل نے اپنی تقریر میں کہا، "موت کی جغرافیہ نگاری اور بقا کی جدوجہد سے الکسی وچ بخوبی واقف ہیں" اور الکسی وچ نے بحیثیت مصنفہ اپنی تخلیقات کا تعین بھی اسی پس منظر میں کیا۔ اُن کا کہنا تھا، "میں نے پانج کتابیں لکھیں، تاہم بنیادی طور پر گزشتہ چار دہائیوں سے میں ایک ہی کتاب لکھ رہی ہوں، روسی، سویت یونین کی تاریخ: انقلاب، گولاگ، جنگ، چرنوبل۔۔۔ سُرخ سلطنت کا زوال" ۔
گزشتہ روز یعنی اتوار کو فرینکفرٹ عالمی کتب میلے کی اس سال کی تقریبات کے اختتام پر سینٹ پاؤل چرچ میں جرمن امن انعام کی تقریب تقسیم کے موقع پر انعام حاصل کرنے والی مصنفہ سویتلانا الکسی وچ کی تقریر نے تمام سننے والوں کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا۔ اُدھر اشاعت گھروں کے مالکان اور کتابوں کی تجارت کرنے والے افراد نے اس سال کے عالمی میلے کا مثبت میزانیہ پیش کرتے ہوئے فرینکفرٹ کتب میلے کی انفرادیت اور اہمیت پر دلی مسرت کا اظہار کیا۔