جرمن باشندوں کی غذائی عادات غیر متوازن، گوشت کا استعمال بے تحاشا
21 دسمبر 2012اگرچہ جرمن باشندوں کی اکثریت آج ماضی کے مقابلے میں زیادہ سبزیاں استعمال کرتی ہے تاہم مجموعی طور پر گوشت کا اوسط فی کس استعمال ابھی بھی بہت زیادہ ہے، جس کا نتیجہ عام طور پر موٹاپے اور بیماریوں کی صورت میں نکلتا ہے۔
روایتی جرمن کھانوں میں گوشت، چکنائی اور کیلوریز کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن آج جرمن باشندوں کی کھانے پینے کی عادات ماضی کے مقابلے میں کافی تبدیل ہو چکی ہیں۔ یہ بات وفاقی جرمن حکومت کے ایماء پر جرمن سوسائٹی فار نیوٹریشن کی طرف سے تیار کی گئی نیوٹریشن رپورٹ 2012ء میں کہی گئی ہے۔
بہت سے جرمن بہت موٹے
رپورٹ کے مطابق اس وقت جرمنی میں 60 فیصد مرد اور 43 فیصد خواتین موٹاپے کا شکار ہیں۔ اس تناسب میں پچھلے کئی سالوں سے کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ جرمنی میں آج بھی گوشت بہت زیادہ کھایا جاتا ہے۔
جرمن نیوٹریشن سوسائٹی یا DGE کے صدر اور پاڈَیر بَورن یونیورسٹی کے غذائیت اور صحت سے متعلقہ امور کے انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر ہیلمُوٹ ہَیزیکر نے اس بارے میں ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ جرمنی میں فی کس بنیادوں پر گوشت کا سالانہ استعمال اپنی بہت اونچی سطح تک پہنچنے کے بعد وہیں رک چکا ہے۔
غذائی امور کے ماہرین کے بقول ایک عام انسان کو اوسطاﹰ ہر ہفتے تین سو سے لے کر چھ سو گرام سے زیادہ گوشت نہیں کھانا چاہیے لیکن جرمنی میں بہت سے مرد اتنا گوشت تو ہر روز کھا جاتے ہیں۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر یہ گوشت زیادہ چکنائی والا نہ بھی ہو تو کئی جرمن شہری اس گوشت کو ایسے شوربے اور چٹنیوں کے ساتھ کھاتے ہیں کہ بہت سی چکنائی اضافی طور پر ان کی خوراک کا حصہ بن جاتی ہے۔
اس طرح گوشت کا بہت زیادہ استعمال نہ صرف موٹاپے کا سبب بنتا ہے بلکہ سرطان کی بیماری کا خطرہ بھی کافی زیادہ ہو جاتا ہے۔ پروفیسر ہَیزیکر کہتے ہیں، ‘بہت زیادہ سرخ گوشت، مثال کے طورپر خنزیر، گائے یا بھیڑ بکری کا گوشت کھانے سے بڑی آنت کے سرطان کا خطرہ کافی زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس مرغی یا مچھلی کا، یعنی بہت زیادہ مقدار میں سفید گوشت کھانے سے بڑی آنت کے سرطان کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے‘۔
گوبھی، مٹر اور دالیں کم مقبول
اس رپورٹ میں جو حوصلہ افزاء بات سامنے آئی، وہ یہ ہے کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران جرمنی میں سبزیوں کے استعمال کی شرح میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ جرمنی میں ایک عام شہری اوسطاﹰ ہر سال 25 کلو گرام سبزیاں استعمال کرتا ہے اور اس شرح میں سن 2000 سے اب تک فی کس بنیادوں پر ایک کلو گرام کا اضافہ ہو چکا ہے۔
اس عرصے کے دوران جن سبزیوں کے استعمال کی شرح میں خاص طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ان میں ٹماٹر، کھیرے، گاجریں اور سلاد قابل ذکر ہیں۔ اس کے برعکس اسی عرصے میں گوبھی کی مختلف قسموں، مٹروں، پھلیوں اور دالوں کے استعمال میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔
پھل کھانے کے معاملے میں تو جرمن باشندوں نے مجموعی طور پر ماضی کے مقابلے میں اپنا ہاتھ اور بھی کھینچ لیا ہے۔
بیئر، لیمونیڈ اور پانی
اس رپورٹ میں جرمن عوام کی کھانے کے علاوہ پینے کی عادات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ جرمن عوام کی اکثریت کا پسندیدہ مشروب منرل واٹر ہے لیکن میٹھے سافٹ ڈرنکس بھی کافی زیادہ پیے جاتے ہیں۔
جرمن شہریوں کی اکثریت پانی کے مقابلے میں بیئر اور وائن تو کم پیتی ہے لیکن ابھی بھی 31 فیصد مرد اور 25 فیصد خواتین اس سے زیادہ الکوحل استعمال کرتے ہیں جتنی کہ طبی حوالے سے قابل قبول قرار دی جاتی ہے۔
بڑھاپا اور موٹاپا
اس سال اس رپورٹ میں بزرگ شہریوں کی غذائی عادات کے مطالعے پر خصوصی توجہ دی گئی۔ پتہ یہ چلا کہ 70 سے لے کر 74 برس تک کی عمر کے شہریوں میں سے 74 فیصد مرد اور 63 فیصد خواتین موٹاپے کا شکار ہیں اور یہ تناسب غیر معمولی حد تک زیادہ ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ بزرگ شہریوں کی خوراک عام طور پر نہ صرف غیر متوازن ہوتی ہے بلکہ وہ جسمانی نقل و حرکت بھی بہت کم کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جرمن بچوں میں موٹاپے کی شرح ماضی کے مقابلے میں کچھ کم ہوئی ہے۔
جرمنی میں یہ نیوٹریشن رپورٹ وفاقی حکومت کے ایماء پر سن 1969 سے ہر چار سال بعد تیار کی جاتی ہے۔ اس جائزے کے نتائج یہ طے کرنے میں مدد دیتے ہیں کہ عوام کی غذائی عادات کیسی ہیں اور اس حوالے سے طویل المدتی رجحانات کن حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں۔
M. Lütticke, mm / M. Müller, ij