1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن تعاون سے خیبر پختونخوا میں صاف پانی کی فراہمی

10 اگست 2011

جرمن حکومت کی تعاون سے کے ایف ڈبلیو ڈیویلپمنٹ بنک نے صوبہ خیبر پختونخوا کے دور دراز اور پہاڑی علاقوں کے عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے دو منصوبوں پر کام مکمل کر لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/12Dsr

آٹھ ماہ کی قلیل مدت میں چترال کے علاقے ملکاؤ کے دو دُور اُفتادہ دیہات گھات بالا اور گھات پائیں میں یہ منصوبے 8.07 ملین روپے کی لاگت سے مکمل کئے گئے۔ اس رقم کا 26 فیصد حصہ مقامی لوگوں نے دیا۔ کے ایف ڈبلیو ڈیویلپمنٹ بنک کے پرنسپل ٹیکنیکل ایڈوائزر الیگزینڈر گرِیب، خاتون نگران بِرٹے کیمِنگ اور چترال سے منتخب رکن خیبر پختونخوا اسمبلی غلام محمد نے گذشتہ روز ان منصوبوں کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر غلام محمد کا کہنا تھا کہ صاف پانی کی فراہمی یہاں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا اور انہوں نے عوام سے وعدہ بھی کیا تھا لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے صوبائی حکومت سے یہ کام چار برسوں میں نہ کروا سکے۔ گھات بالا اور گھات پائیں کے لیے پانی کی فراہمی کی ایک سپلائی لائن ساڑھے سات کلومیٹر جبکہ دوسری گیارہ کلومیٹر طویل ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں زیادہ تر وہی منصوبے مکمل کئے جاتے ہیں، جن کی نگرانی ڈونر ایجنسیاں یا غیر ملکی خود کرتے ہیں ورنہ یہ تاثرعام ہے کہ عوامی فلاح کے لیے ملنی والی غیر ملکی امداد کسی اور مد میں خرچ کر دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے صوبہ خیبر پختونخوا اور بالخصوص قبائلی علاقوں کے سیاستدان پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں بحالی اور تعمیر نو کے کاموں کی رفتار اور ملنے والی امداد سے مطمئن نہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اور قومی اسمبلی کی خارجہ امور کے کمیٹی کے چیئرمین اسفند یار ولی خان
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اور قومی اسمبلی کی خارجہ امور کے کمیٹی کے چیئرمین اسفند یار ولی خانتصویر: AP

ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ دس سال سے پوری دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور پختونخوا اس جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہاں سب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے، اس لیے عالمی برادری کو اسی تناظر میں اس صوبے کے مسائل کے حل اور تعمیر نو کے لیے اقدامات اٹھانے چاہییں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اور قومی اسمبلی کی خارجہ امور کے کمیٹی کے چیئرمین اسفند یار ولی خان نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم صوبے میں اتحادی ممالک اور عالمی برداری کے جانب سے تعمیر نو کے کاموں کیلئے فنڈز کی فراہمی سے مطمئن نہیں ہیں۔ جو نقصان ہم اٹھا رہے ہیں، جس تباہی کا ہم سامنا کر رہے ہیں، اُس کے مقابلے میں یہ امداد بہت کم ہے‘۔

انہوں نے عالمی سطح پر مالیاتی بحران کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر میں خود بھوکا ہوں تو آپ مجھ سے کیا توقع رکھتے ہیں کہ میں آپ کو کھانا کھلاؤں گا‘۔

یہی حال قبائلی علاقوں سے منتخب اراکین پارلیمان کا بھی ہے۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ عالمی ادارے اور وفاقی حکومت قبائلی عوام کیلئے کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ وہاں کے عام لوگوں کی یہی رائے ہے کہ حکومت پاکستان قبائلی علاقوں کے نام پر آنے والے فنڈز قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی کیلئے استعمال ہی نہیں کرتی۔

ان منصوبوں کے ذریعے چترال کے دو دُور اُفتادہ دیہات گھات بالا اور گھات پائیں کو پانی فراہم کیا گیا ہے
ان منصوبوں کے ذریعے چترال کے دو دُور اُفتادہ دیہات گھات بالا اور گھات پائیں کو پانی فراہم کیا گیا ہےتصویر: cc-by-sa/Guilhem Vellut

وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر صالح شاہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا:”اگر واقعی اتحادی ممالک سے ملنی والی امدادی رقوم پاکستان نے قبائلی علاقوں میں خرچ کی ہیں اور ان سے تعمیر و ترقی کے منصوبے مکمل کئے گئے ہیں، تو میڈیا کو وہاں جانے دیا جائے، جو قوم کو یہ بتائے کہ کہاں پر کتنا کام کیا گیا ہے۔ میڈیا کو باجوڑ، وزیرستان، مومند اور دیگر قبائلی علاقوں میں لے جایا جائے اور بتایا جائے کہ کون سا سکول، کالج اور روڈ عالمی امداد کے پیسوں سے بنے ہیں۔ یہ ویسے ہی دعوے کرتے ہیں کہ قبائل میں انہوں نے ترقیاتی کام کیا ہے۔ جن سڑکوں کی بات کی جاتی ہے، وہ قوم کو دکھائی کیوں نہیں جاتیں۔ یہ محض دعوے اور کاغذی کاروائیاں ہیں۔‘‘

جرمن حکومت صوبہ خیبر پختونخوا کے پانی اور بجلی کے چھوٹے اور درمیانے منصوبوں، سپلائی لائن کی بحالی اور نئی لائنیں بچھانے کیلئے دو سو ملین یورو سے زیادہ کی رقم فراہم کرے گی۔ اسی طرح 2011ء سے 2021ء تک پاکستان میں توانائی کے متعدد منصوبوں پر 48.5 ملین یورو خرچ کرے گی۔ اگلے دو سالوں کے دوران جرمنی مختلف منصوبوں پر ساڑھے بارہ ملین یورو خرچ کرے گا تاکہ توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکے۔ جرمنی نے 1961ء سے اب تک پاکستان میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لیے 2.3 ارب یورو فراہم کئے ہیں۔ پاکستان اور جرمنی کے مابین دوستانہ تعلقات کو پچاس سال پورے ہوگئے ہیں۔

رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں