جرمن، جنوبی ایشیائی پارلیمنٹیرینز گروپ کی سربراہ ایرنسٹ بیرگر کا انٹرویو
8 نومبر 2011جرمنی میں وفاقی سطح پر اپوزیشن کی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی اور جرمن ایوان زیریں بنڈس ٹاگ کی رکن پیٹرا ایرنسٹ بیرگر نے یہ بات ڈوئچے ویلے کے شعبہء جنوبی ایشیا کے سربراہ گراہیم لوکاس کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں کہی۔ ان کے ڈوئچے ویلے کے ساتھ انٹرویو کا متن:
ڈوئچے ویلے: آپ جنوبی ایشیا کا کافی زیادہ سفر کرتی ہیں اور وہاں حکومتی اہلکاروں اور مختلف سماجی گروپوں کے مفادات کی نمائندہ شخصیات سے ملتی ہیں۔ اس خطے کے بارے میں آپ کا تاثر کیا ہے، جہاں عالمی آبادی کا قریب ایک چوتھائی حصہ آباد ہے؟
ایرنسٹ بیرگر: یہ ایک بہت ہی اہم خطہ ہے جسے ہماری معمول کی پارلیمانی مصروفیات کے دوران زیادہ توجہ نہیں ملتی۔ ہم ارکان پارلیمان کے طور پر زیادہ تر داخلی سیاست پر توجہ دیتے ہیں اور خارجہ سیاست کی طرف دھیان اس وقت جاتا ہے جب کہیں کوئی بم پھٹ جائے یا کوئی جنگ شروع ہو جائے۔ ارکان پارلیمان کا اپنے انتخابی حلقوں کے لوگوں کے ساتھ بہت قریبی رابطہ ہونا چاہیے اور یہ ووٹر عام طور پر خارجہ پالیسی میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔
ڈوئچے ویلے: کیا آپ کی رائے میں جرمن عوام افغانستان میں مغربی فوجی موجودگی کے نتیجے میں اب اس خطے میں زیادہ دلچسپی لینے لگے ہیں؟
ایرنسٹ بیرگر: میری رائے میں اس بات کا امکان کم ہے کہ ایسا ہے۔ ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ افغانستان میں حالات کیسے رہیں گے۔ اس وقت پاکستان ایک مشکل کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستانی عوام کو قدرتی آفات کا سامنا بھی کرنا پڑا، وہاں کی وفاقی حکومت بھی کمزور ہے اور پھر ظاہر ہے کہ پاکستان جغرافیائی طور پر افغانستان سے بہت قریب بھی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی حکومت نے مقامی طالبان کے خلاف کارروائیوں کے لیے ملک کے مختلف علاقوں میں سرکاری فوجی دستے بھی بھیج رکھے ہیں۔ پاکستانی طالبان بھی پاکستان ہی کے لوگ ہیں۔ نفسیاتی طور پر یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ پاکستان میں آئندہ کیا ہو گا لیکن ہمیں وہاں کی صورت حال میں استحکام کے لیے کام کرتے رہنا ہو گا۔
ڈوئچے ویلے: پاکستان میں آپ کے رابطے کس کے ساتھ ہیں؟
ایرنسٹ بیرگر: میں نے اپنے گزشتہ دورے کے دوران ارکان پارلیمان کے ساتھ ملاقاتیں کی تھیں۔ ان میں شہباز بھٹی نامی وہ سیاستدان بھی شامل تھے جنہیں بعد میں قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ ایسے واحد سیاستدان تھے جنہوں نے توہین مذہب کے قانون کو منسوخ کرانے کی کوشش کی تھی۔ ہم نے وہاں پر یورپی یونین کے نمائندوں اور امدادی تنظیموں کے عہدیداروں سے بھی بات چیت کی تھی۔ تب مجھے یہ تاثر ملا تھا کہ پاکستان میں رونما ہونے والی تبدیلیاں، خاص طور پر سلامتی کی صورت حال بہت اچھی نہیں تھی۔
ڈوئچے ویلے: کیا آپ کو یہ تاثر ملا کہ سکیورٹی کی صورت حال پہلے کے مقابلے میں خراب ہو چکی ہے؟
ایرنسٹ بیرگر: جی ہاں، بہت زیادہ! پاکستان دنیا کے بڑے مسلمان ملکوں میں سے ہے۔ انڈونیشیا کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اسلامی ملک۔ انڈونیشیا میں اسلام کی اعتدال پسندانہ تشریح کی ترویج کی جاتی ہے۔ پاکستان بھی ایسا ہی راستہ اپنا سکتا تھا۔ لیکن وہاں اسلام کی قدامت پسندانہ تشریح سامنے آئی ہے۔ وہاں موجود 20 ہزار مدرسوں کو ہی دیکھیے۔ اس کے علاوہ طالبان، ملکی خفیہ اداروں کی سرگرمیاں اور فوج بھی۔
ڈوئچے ویلے: کیا آپ پاکستان کو یہ مشورہ دینا چاہیں گی کہ وہ اپنے ہاں پارٹی سسٹم میں اصلاحات لائے؟ کیا پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے ڈھانچوں میں اصلاحات ممکن ہیں؟
ایرنسٹ بیرگر: نہیں، میرا خیال ہے نہیں۔ وہاں یہ معاملہ بڑی تعداد میں بہت طاقتور مفادات کا ہے۔ بات بہت ہی زیادہ رقم کی ہے۔ یہ دیکھیے کہ سیلاب کے دوران کیا ہوا؟ پورے ملک میں پانی شمال سے جنوب کی طرف بہہ رہا تھا۔ چند بند ایسے تھے جنہیں کھولنا ضروری تھا، مختلف ڈیموں پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کے لیے۔ لوگوں نے یہ پوچھنا شروع کر دیا تھا کہ کون سی زمین کس کی ملکیت ہے یا کون سی پارٹی اسے کنٹرول کرتی ہے۔ سیلاب کے خطرے سے دوچار علاقوں میں پانی کا دباؤ کم کرنے کے لیے جو بند کھولے گئے تھے، ان کا فیصلہ اسی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی سوجھ بوجھ کی کتنی کمی ہے۔
ڈوئچے ویلے: یہ بات تو صرف سیاسی جماعتوں کی ناکامی سے کہیں زیادہ نظر آتی ہے۔ یہ تو حکومت کی ناکامی محسوس ہوتی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ سمجھتی ہیں کہ پاکستان ایک 'ناکام ریاست‘ بن چکا ہے؟
ایرنسٹ بیرگر: ناکامی کا لفظ استعمال کرنا اس بات کو کہنے کا بہت سخت طریقہ ہو گا۔ میں ہر کسی کو موقع فراہم کرنے پر یقین رکھتی ہوں۔ ترقی کرنے کا موقع اور آگے بڑھنے کا موقع۔ ہمیں لوگوں کو اس پوزیشن میں لانا ہو گا کہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں۔ انہیں اسلام پسندانہ تعلیمات یا اسلام پسند مبلغوں کا آلہ کار بننے سے بچانا ہو گا۔ بہت سے لوگ اس صورت حال کو پوری طرح نہیں سمجھتے۔
ڈوئچے ویلے: کیا آپ کی رائے میں پاکستانی حکومت کو اسلام پسندوں کی دہشت گردی کو روکنے کے لیے زیادہ کوششیں کرنی چاہیئں؟
ایرنسٹ بیرگر: یہ ایک مختلف مسئلہ ہے۔ پاکستان میں کچھ لوگ بہت جلد بہت زیادہ مشتعل ہو سکتے ہیں، کسی خاص مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ تشدد کے استعمال پر بھی تیار ہو جائیں گے۔ حکومت بظاہر اس مسئلے کو اس کا سامنا کرتے ہوئے حل کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔ وادی سوات میں حکومت نے ایکشن لیا اور وہ خاصا کامیاب رہا تھا۔ لیکن بات یہ ہے کہ حکومت جمہوریت کی وکالت تو کرتی ہے تاہم شدت پسندوں کو بھی ان کی سرگرمیاں جاری رکھنے دیتی ہے۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے کہ انٹیلیجنس سروس نے، جو حکومت پر کافی زیادہ اثر انداز ہوتی ہے، اپنی روش تبدیل کر لی ہے۔ وہ ان ممکنہ فائدوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں، جو ان کو طالبان کو اپنے کنٹرول میں رکھنے سے حاصل ہو سکتے ہیں۔
انٹرویو: گراہیم لوکاس
ترجمہ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک