جرمن شہریت کا حصول آسان بنانے کی حکومتی کوششیں
26 نومبر 2022جرمن حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ جرمن شہریت حاصل کرنے کے قوانین کو آسان بنانے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ گزشتہ برس حکومت سازی کے لیے ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے مطابق شہریت کے حصول کی تمام تر شرائط پورا کرنے والوں کو پانچ سال یا ''انضمام کی غیر معمولی کامیابیوں‘‘ کے ساتھ تین سال میں بھی جرمن شہریت دی جائے گی۔ اس کے علاوہ جرمنی میں پیدا ہونے والے بچے جن کے والدین میں سے کوئی ایک بھی پانچ سال سے جرمنی میں قانونی طور پر مقیم ہو انہیں بھی جرمن شہریت دے دی جائے گی۔ برلن حکومت دُوہری شہریت پر لگی پابندیاں بھی ہٹانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
تازہ حکومتی اعلان
جرمنی کی سماجی طور پر لبرل حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جرمنی شہریت حاصل کرنے کے قوانین کو آسان بنانے کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں قدامت پسند اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو اس معاملے میں شدید مخالفت کا سامنا ہے۔
جرمن چانسلر اولاف شولس نے آج ہفتہ 26 نومبر کو ایک ویڈیو پیغام میں کہا، ''جرمنی طویل عرصے سے بہت سے لوگوں کے لیے امید کا محور ملک بن چکا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ وہ باشندے جو جرمنی آکر یہاں کی جڑوں سے پیوست ہو گئے ہیں وہ اب جرمن شہریت لینے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ ‘‘ جرمن چانسلر نے مزید کہا، ''جرمنی کو ان تمام عظیم خواتین اور مردوں کو شہریت دینے کے لیے ضوابط پرنظر ثانی کرنا ہوگی اور یہ موجودہ سہ جماعتی مخلوط حکومت کی جرمن شہریت دینے کے حوالے سے جدید اصلاحات کے سلسلے کا ایک حصہ ہے۔‘‘ واضح رہے کہ موجودہ مخلوط حکومت میں سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی، ماحولیات دوست گرین پارٹی اور کاروبار کی حامی فری ڈیموکریٹس کی جماعت ایف ڈی پی شامل ہے۔ ان تینوں نے گزشتہ دسمبر میں وزارتیں سنبھالنے کے ساتھ ہی جرمن شہریت کے قوانین کو آسان بنانے کے لیے اصلاحات کا فیصلہ کیا تھا۔ وزارت داخلہ نے گزشتہ جمعے کو کہا کہ مسودہ قانون ''تقریباً تیار ہے۔‘‘
دوہری شہریت کی اجازت
اصولی طور پر جرمنی میں یورپی یونین میں شامل ممالک اور سوئٹزرلینڈ کے علاوہ تمام دیگر ممالک کے باشندوں کو دوہری شہریترکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یعنی اب تک یورپی یونین کے رکن ممالک اور سوئٹزرلینڈ کے علاوہ دنیا کے کسی دوسرے ملک کے شہریوں کو جرمن شہریت لینے کے لیے اپنی سابقہ شہریت ختم کرنا پڑتی ہے تاہم اس قانون میں کچھ چھوٹ بھی رکھی گئی تھی۔
جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر یہ دلیل دیتی ہیں کہ شہریت کے اہل ہونے کے لیے مختص وقت کے انتظار میں کمی لانا از خود ''انضمام کی طرف رغبت بڑھانے کے ''مترادف‘‘ ہے۔ جمعے کو انہوں نے اپنے بیان میں کہا، ''اس کا مقصد اس حقیقت کی عکاسی کرنا ہے کہ ہم متنوع، امیگریشن کا جدید ملک ہیں، اور میرے خیال میں قانون سازی سے اس کا اظہار ہونا چاہیے۔‘‘
اپوزیشن کا موقف
دائیں بازو کی طرف جھکاؤ والے اپوزیشن یونین بلاک حکومت کے نیچرلائزیشن یا شہریت کے حصول کے قوانین کو آسان کرنے کے منصوبوں کو مسترد کر دیا۔ جرمن روزنامہ ''بِلڈ‘‘ کو بیان دیتے ہوئے ایک سینیئر قدامت پسند قانون ساز الیکسانڈر ڈوبرنٹ نے کہا، ''جرمن شہریت سستے داموں بیچنے سے انضمام کے عمل کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ اس کے برعکس غیر قانونی ہجرت کو تحریک ملے گی۔‘‘ اُدھر ''زؤڈ ڈوئچے فیرنزیہر‘‘ ZDF ٹیلی وژن چینل سے بات کرتے ہوئے کرسچین ڈیموکریٹک یونین اور کرسچن سوشل یونین کے پارلیمانی دھڑے کے سربراہ تھورسٹن فرائی کا کہنا تھا، ''شہریت کے اہل ہونے کے لیے پانچ سال بہت کم عرصہ ہے۔‘‘
جرمن شہریت حاصل کرنے والوں کی شرح
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال تقریباً 131,600 افراد نے جرمن شہریت حاصل کی۔ ان میں سے ایک چوتھائی دیگر یورپی شہری تھے۔
یہ تعداد اُس سے گزشتہ سال کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ تھی۔ اس کی جزوی وجہ شامی تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد تھی۔ جرمنی کی کل آبادی تقریباً 84 ملین ہے۔
اصلاحاتی پلان کے چند اہم نکات
منصوبوں کے تحت حکومت نے جرمنی کے ضابطہ فوجداری قانون سے ڈاکٹروں کی طرف سے 'اسقاط حمل کی سروسز کے اشتہار‘ پر لگی پابندی ہٹا دی گئی ہے۔
یورپی پارلیمانی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی کم از کم عمر کو بھی 18 سال سے کم کر کے 16 سال کر دیا گیا ہے اور حکومت اب ایسا ہی قومی انتخابات کے لیے بھی کرنا چاہتی ہے۔
حکومت اُس 40 سال پرانی قانون سازی کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے جس کے تحت جنس کی تبدیلی سے پہلے غیر جنس پرست لوگوں کو نفسیاتی تشخیص اور عدالت کی اجازت حاصل کرنے لازمی تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے کچھ منصوبوں کو پارلیمان کے ایوان بالا میں مشکلات اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ وہاں جرمنی کی تمام 16 ریاستوں کی نمائندگی موجود ہے اور اولاف شولس کے اتحاد کو اکثریت پر کنٹرول حاصل نہیں ہے۔ اس اصلاحاتی منصوبے میں شامل بے روزگاری الاؤنس کا قانون رواں ہفتے پاس ہونا ہے۔ یہ بھی سہل نہ ہوگا۔
ک م/ا ب ا ( اے ایف پی)