جرمن فوج میں مسلمان فوجیوں کے لیے آئمہ کی تقرری کا مطالبہ
6 فروری 2019اکثریتی طور پر مسیحی عقیدے کی حامل آبادی والے ملک جرمنی کی وفاقی فوج میں سپاہیوں کی زیادہ تر تعداد کا تعلق بھی مسیحیت سے ہے۔ لیکن جس طرح جرمنی میں مسیحیت کے بعد اسلام سب سے بڑا مذہب ہے، اسی طرح وفاقی فوج میں بھی مسلمانوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ جرمن فوج کے مسیحی ارکان کی مذہبی اور روحانی رہنمائی کے لیے فیڈرل آرمی میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں سے تعلق رکھنے والی کلیسائی شخصیات کی بھرتی تو کوئی نئی بات نہیں لیکن بہت سے مسلمانوں کو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ وفاقی جرمن مسلح افواج کے مسلمان ارکان کے لیے کوئی امام موجود نہیں ہیں۔
اس بارے میں برلن میں ملکی حکومت کا کہنا یہ ہے کہ وفاقی فوج میں آئمہ کی تقرری کے ساتھ مذہبی کیڈر میں توسیع سے قبل اس سلسلے میں بہت سے کلیدی سوالوں کے جوابات حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔
مراکشی نژاد مسلم خاتون بحری افسر
ناریمان رائنکے جرمن بحریہ کی ایک ایسی پیٹی آفیسر ہیں، جو مراکش سے ترک وطن کر کے آنے والے ایک مسلم گھرانے میں 1979ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے 2005ء میں جرمن مسلح افواج میں اپنا پیشہ ورانہ کیریئر شروع کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ افغانستان میں بھی فرائض انجام دے چکی ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جرمن فوج میں ایک مسلم خاتون افسر کے طور پر فرائض انجام دینا ہمیشہ ہی بہت آسان نہیں ہوتا۔ رائنکے Deutscher.Soldat یا ’جرمن فوجی‘ نامی ایک ایسے گروپ کی نائب سربراہ بھی ہیں، جو مختلف رنگ و نسل اور عقائد کے حامل افراد کے وفاقی جرمن فوج میں بہتر انضمام کے لیے کوشاں ہے۔ یہ گروپ اس سلسلے میں بھی سرگرم ہے کہ جرمنی میں مختلف مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو وفاقی فوج میں بہتر انضمام کا موقع ملنا چاہیے۔
رائنکے نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ مسیحی فوجیوں اور افسران کے لیے تو کیتھولک اور پروٹسٹنٹ پادریوں کی خدمات دستیاب ہیں لیکن اگر مسلمان فوجیوں کو اپنے لیے مذہبی رہنمائی یا کسی وضاحت کی ضرورت ہو، تو ان کے لیے آئمہ موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں انہوں نے وفاقی جرمن وزیر دفاع اُرزُولا فان ڈئر لاین کے ساتھ بات چیت میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا تھا تاہم اب تک کوئی عملی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
جرمن مسلم فوجیوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار
جرمنی سے باہر بہت سے حلقے یہ نہیں جانتے کہ جرمن مسلح افواج میں مجموعی طور پر مسلمان افسروں اور عام فوجیوں کی تعداد قریب ڈیڑھ ہزار بنتی ہے۔ ان فوجیوں کو اپنی روزمرہ کی پیشہ ورانہ زندگی میں کئی معاملات میں مذہبی رہنمائی کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔
وفاقی جرمن وزارت دفاع کے مطابق فیڈرل آرمڈ فورسز میں مسلم آئمہ کی تقرری سے متعلق جرمن اسلام کانفرنس کے ساتھ مذاکرات اور مشاورت جاری ہیں۔ دوسری طرف جرمنی میں ’اسلام کانفرنس‘ نامی نیم سرکاری مذہبی پلیٹ فارم میں شامل مسلم تنظیموں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کوئی عملی فیصلے کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔
فوجی تھیلے میں کفن بھی
ناریمان رائنکے نے کہا کہ انہوں نے جہاں جہاں بھی مسلح مشنوں کے دوران اپنے فرائض انجام دیے، ایک بات ہمیشہ ان کے ذہن میں تھی کہ وہ کسی بھی آپریشن میں ماری بھی جا سکتی تھیں۔ ’’اس کے لیے میں نے اپنے طور پر یہ انتظام کر رکھا تھا، کہ اگر فرائض کی انجام دہی کے دوران میری جان چلی جائے، تو میری میت کو یونیفارم میں ہی کسی تابوت میں بند کر کے گھر بھیجنے کے بجائے مسلم عقیدے کے مطابق کفن میں دفن کیا جانا چاہیے۔‘‘
رائنکے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس کے لیے میں اپنے فوجی بیگ میں اپنا کفن بھی ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتی تھی۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’افغانستان میں تعیناتی کے دوران میں نے یہ انتظام بھی کر لیا تھا کہ اگر میں کسی آپریشن میں ماری گئی، تو میری میت کو غسل دیے جانے کے بعد میری تکفین کی جانا چاہیے۔ اسی لیے میرا کفن ہر وقت میرے بیگ میں ہوتا تھا۔‘‘
کثیر الثقافتی فیڈرل آرمی
برلن میں وفاقی جرمن حکومت کی طرف سے ہمیشہ اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ ملکی مسلح افواج کو زیادہ سے حد تک کثیر المذہبی، کثیر الثقافتی اور کثیرالنسلی بنانا چاہتی ہے۔ لیکن مختلف وجوہات کے باعث اب تک اگر فیڈرل فورسز میں مسلم امام بھرتی نہیں کیے جا سکے، تو اس وجہ سے خاص طور پر سیاسی اپوزیشن کی طرف سے حکومت پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔
ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے دفاعی پالیسی سے متعلق امور کے ترجمان اور وفاقی جرمن پارلیمان کے رکن ٹوبیاس لِنڈنر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ چکا ہے کہ وفاقی جرمنی کی مسلح افواج میں مختلف مذاہب اور عقائد کے حامل اہلکاروں کی موجودگی کو تسلیم بھی کیا جائے اور اسے سراہا بھی جائے۔‘‘
ٹوبیاس لِنڈنر نے کہا، ’’فوجیوں کو ان کے فرائض کی انجام دہی کے دوران مذہبی تائید و حمایت بھی ملنا چاہیے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی عقیدے سے ہو۔ حکومت اس موضوع پر کئی برسوں سے غور کر رہی ہے۔ میری رائے میں عملی فیصلے کا وقت تو کب کا آ چکا ہے۔‘‘
آئمہ کی تلاش مشکل کیوں
جرمنی میں مسلمانوں کی ملک گیر نمائندگی کے سلسلے میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں آباد کئی ملین مسلمانوں کا تعلق بہت سی مختلف نسلوں، آبائی قومیتوں اور فرقوں سے ہے۔ ان مسلم نسلی گروپوں اور فرقوں کی نمائندہ اپنی تنظیمیں تو ہیں مگر مسلمانوں کی کوئی مشترکہ اور غیر متنازعہ ملکی تنظیم ابھی تک قائم نہیں ہو سکی۔
اسی لیے وفاقی حکومت کے لیے جرمنی میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق پالیسیوں سے قبل مشاورت کی خاطر اسلام کانفرنس کی سطح پر بھی مسلمانوں کی کوئی متفقہ ملکی نمائندگی دستیاب نہیں۔ اگر سماجی سطح پر اس نمائندگی کا فقدان ہے تو جرمن مسلح افواج میں یہی صورت حال مزید ابہام کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اس لیے کہ ملکی سلامتی کے نگران اس ادارے میں کوئی بھی فیصلے اس بنیاد پر نہیں کیے جا سکتے کہ بعد میں مذہبی بنیادوں پر ان کے باعث اختلافات یا بے چین کر دینے والی صورت حال پیدا ہو۔