1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن معاشرت میں سامیت مخالفت بڑھ رہی ہے

24 اکتوبر 2019

ایک جرمن اخبار کے مطابق جرمنی میں سامیت مخالفت میں اضافے کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ یہ ریسرچ عالمی یہودی کانگریس نامی بین الاقوامی تنظیم نے مرتب کرائی ہے۔

https://p.dw.com/p/3RpYu
Symbolbild - Antisemitismus - Polizei vor Synagoge
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache

جرمن اخبار زُوڈ ڈوئچے سائٹنگ نے ورلڈ جیوش کانگریس کی اُس رپورٹ کی تفصیلات شائع کی ہیں، جس میں جرمن معاشرے میں سامیت مخالفت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ اس خصوصی سروے رپورٹ میں تیرہ سو جرمن شہریوں کے انٹرویوز کیے گئے۔ اخبار نے جرمنی میں پیدا ہونے والی سامیت مخالفت کے تناظر میں اس سروے رپورٹ کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔

اس سروے رپورٹ میں ستائیس فیصد افراد نے سامیت دشمنی کے احساسات و جذبات میں بڑھتے ہوئے اضافے کے رجحان پر اتفاق کیا۔ انہی لوگوں نے یہودی قوم کے بارے میں قدیمی سوچ کے بڑھنے کو درست بھی قرار دیا۔ سروے رپورٹ کے مطابق اکتالیس فیصد جرمن شہریوں کا کہنا ہے کہ یہودی ہولوکاسٹ کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو کرتے ہیں۔

Deutschland Halle nach Anschlag auf Synagoge
جرمن معاشرے میں سامیت مخالفت پر توجہ مرکوز کی گئی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas

اکتالیس فیصد جرمن افراد کا خیال ہے کہ جرمنی میں مقیم یہودی اسرائیل کے ساتھ وفاداری کا اظہار بمقابلہ جرمنی زیادہ کرتے ہیں۔ سروے کے مطابق بیس فیصد لوگوں نے اس سے اتفاق کیا کہ یہ درست ہے کہ یہودی شہریوں کے پاس خاص طور پر اقتصادی، بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں اور ذرائع ابلاغ پر کنٹرول کی قوت دوسروں سے کہیں زیادہ ہے۔

بائیس فیصد افراد نے یہودیوں کے رویوں کی بنیاد پر اُن سے نفرت کا اظہار کیا ہے۔ ریسرچ کے مطابق سامیت مخالفت جرمنی کے پڑھے لکھے اور متمول طبقے میں بھی پھیل رہی ہے۔ یہ سروے ہالے شہر میں سائناگوگ کے قریب کیے گئے حملے سے دو ماہ قبل مکمل کیا گیا تھا۔ ہالے کے حملے کو سامیت دشمنی کا شاخسانہ قرار دیا گیا ہے۔

Polizei vor der Neuen Synagoge Berlin
جرمن حکومت نے سائنا گوگ کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/C. Soeder

ہالے شہر میں کیے گئے حملے میں کم از کم دو افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لے کر ابھی تک پوچھ گچھ جاری ہے۔

ورلڈ یہودی کانگریس کے سروے رپورٹ کے مطابق جرمن معاشرے کا اٹھارہ فیصد وہ امیر طبقہ، جس کے پاس یونیورسٹی کی ڈگری اور اُن کی سالانہ تنخواہ کا حجم ایک لاکھ گیارہ ہزار ڈالر سے زائد ہے، اُس نے بھی سامیت مخالفت جذبات کے بڑھنے سے اتفاق کیا ہے۔ اس امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک چوتھائی افراد نے عالمی اقتصاد پر بھی یہودیوں کے کنٹرول پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

عالمی یہودی کانگریس کے صدر رونالڈ ایس لاؤڈر نے جرمن اخبار کو بتایا کہ جرمنی میں سامیت دشمنی کی صورت حال ایک بحرانی مقام پر پہنچ گئی ہے۔ یہ تشویش کی بات ہے کہ عام لوگ بھی اس صورت حال پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور یہ  اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ لاؤڈر کے مطابق یہ جرمنی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عدم برداشت اور نفرت کے بڑھتے رجحان کو کنٹرول کرے۔ لاؤڈر کے مطابق برلن حکومت کو سامیت مخالفت رویوں کو ختم کرنے کی کوششوں میں لازمی طور پر اضافہ کرنا چاہیے۔

ربیکا اشٹاؤڈنمائر (عابد حسین)

جرمنی میں سامیت دشمنی کے خلاف اقدامات کی منظوری

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں