جرمن ویزہ میں تاخیر، متعدد پاکستانی طلباء کا مستقبل داؤ پر
23 اکتوبر 2022فاروق رشید کے لیے رواں برس بون یونیورسٹی کے شعبہ انجنئیرنگ میں داخلہ ان کی زندگی کا اہم ترین لمحہ تھا۔ انہیں مغربی جرمنی کے شہر بون میں واقع اس یونیورسٹی میں گزشتہ ہفتے اپنی پڑھائی کا آغاز کرنا تھا، تاہم وہ ویزہ لگنے کے انتظار میں ابھی تک پاکستان میں ہی ہیں۔
جرمنی میں حصول تعلیم کے لیے سکالرشپس کیسے ملتی ہیں؟
لاہور سے تعلق رکھنے والے اس 23 سالہ طالب علم کا کہنا ہے کہ انہوں نے جولائی کے مہینے میں ویزہ کے لیے اپلائی کیا تھا لیکن وہ وہ ابھی تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''میری کلاسیں گزشتہ ہفتے شروع ہو چکی ہیں لیکن یونیورسٹی نے مجھے استثنی ٰ دے رکھا ہے اور اب میں اگلے دو سے تین ماہ تک آن لائن کلاسیں اٹینڈ کروں گا۔‘‘ فاروق رشید کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اس بات کا کچھ اندازہ نہیں کہ انہیں اپنا اسٹوڈنٹ ویزہ کب ملے گا۔
یہ کوئی تنہا کیس نہیں ہے۔ جنوب ایشیائی ممالک کے بہت سے طالب علموں نے جرمن سفارت خانوں سے ویزا اپائنٹمنٹ کے لیے طویل انتظار کی شکایت کی ہے۔ 23 سالہ فاطمہ سلیم ماگڈے برگ کی یونیورسٹی میں انٹرپرینیورشپ منیجمنٹ اور مارکیٹنگ میں ماسٹرز پروگرام کے لیےداخلہ لے چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مئی سے ویزا اپائنٹمنٹ کا انتظار کر رہی ہیں۔
طلبہ کا رخ امریکا اور برطانیہ کی بجائے جرمنی کی طرف
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''میں نہیں جانتی تھی کہ جرمن سفارت خانے کی طرف سےاپائنٹمنٹ میں تاخیر کی وجہ سے مجھے اپنا پہلا سمسٹر چھوڑنا پڑے گا، کیونکہ سفارت خانے کی ویب سائٹ کے مطابق ویزہ اپائنٹمنٹ کے لیے انتظار کا دورانیہ دو سے تین ماہ ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''میری کلاسز 10 اکتوبر کو شروع ہوئیں۔ مجھے امید ہے کہ میرا ویزا جلد ہی مل جائے گا۔ میری یونیورسٹی نے مجھے امتحانات سے پہلے کلاسیں جوائن کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ لیکن چونکہ آن لائن کلاسز نہیں ہیں، مجھے بہت سے مسائل کا سامنا ہے اور مجھے خود ہی پڑھنا پڑتا ہے۔‘‘
داخلہ ختم ہو جانے کے خدشات
طالب علموں کا کہنا ہے کہ اگر ان کے ملک میں قائم جرمن سفارت خانے انہیں بر وقت ویزہ مہیا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو انہیں اپنا داخلہ ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ فاطمہ سلیم کے مطابق، ''مجھے ڈر ہے، اگر میں امتحانات سے پہلے ویزہ لینے میں کامیاب نہ ہوئی تو میرا پورا تعلیمی سال ضائع ہو جائے گا، جس کا میرے مستقبل پر تباہ کن اثر پڑے گا۔ میں جرمن سفارت خانے سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ ابھی اس عمل کو تیز کرے اور ہمیں ایک ترجیح بنائے تاکہ ہم کم از کم امتحانات سے پہلے وہاں پہنچ سکیں۔‘‘
اسلام آباد میں جرمن سفارت خانے میں ویزا اپائنٹمنٹ کے لیے درخواست دینے والے طلباء کو ایک خودکار پیغام موصول ہو رہا ہے، جو طویل انتظار کے اوقات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس پیغام میں کہا گیا ہے، ''برائے کرم نوٹ کریں کہ اپائنٹمنٹس کی زیادہ مانگ کو دیکھتے ہوئے، آپ کو اپنی اپائنٹمنٹ کے لیے تقریباً بارہ ماہ سے زیادہ انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘ طالب علموں کو ویزا اپائنٹمنٹ حاصل کرنے میں طویل تاخیر کی وجوہات جاننے سے متعلق ڈی ڈبلیو کی جانب سے بار بار درخواستوں کے باوجود جرمن سفارت خانے کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
طویل انتظار کے پیچھے کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟
جرمن ویزے کے منتظر طالب علم فاروق رشید کا خیال ہے کہ طویل انتظار کے اوقات اس حقیقت کی وجہ سے ہیں کہ پاسپورٹ کے ساتھ کوئی بھی شخص ویزا اپائنٹمنٹ کے لیے درخواست دے سکتا ہے اور انہیں ایسا کرنے کے لیے درحقیقت کسی جرمن یونیورسٹی کے آفر لیٹر کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ یونیورسٹی کے لیے اپلائی کرنے سے بہت پہلے ہی ویزا اپائنٹمنٹ بک کر لیتے ہیں، جو بصورت دیگر ان مستحق ویزا درخواست دہندگان کے پاس جانا چاہیے، جن کے پاس حقیقت میں یونیورسٹیوں کے آفر لیٹر موجود ہیں۔
فاروق رشید کے مطابق ''اس سے اپائنٹمنٹس کے نطام پر ایک بوجھ پڑتا ہے اور بہت سے سنجیدہ امیدوار پیچھے رہ جاتے ہیں،‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''سفارتخانے کو چاہیے کہ وہ ویزہ کے امیدواروں سے کہے کہ وہ اپائنٹمنٹ کے لیے درخواست دیتے وقت کم از کم ایک داخلہ لیٹر فراہم کریں تاکہ ویزہ انٹرویوکے لیے صرف ان سنجیدہ امیدواروں پر غور کیا جا سکے جن کے پاس تمام دستاویزات موجود ہوں۔‘‘
اسلام آباد میں قائم ایک ویزا کنسلٹنسی فرم کے مطابق اس سال طلباء کی طرف سے جرمن ویزوں کی مانگ بھی زیادہ ہے کیونکہ یونیورسٹیوں نے دو سال سے زیادہ عرصے کووڈ کی عالمی وبا کے بعد باقاعدہ کلاسز دوبارہ شروع کی ہیں۔
امیگریشن اٹارنی اور ویزا کنسلٹنٹ، اسامہ ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بہت سے طلباء نے وبائی امراض کی وجہ سے اپنی درخواستیں مؤخر کر دی تھیں، اور اب پچھلے تین سالوں سے منتظر یہ طلباء ویزوں کے لیے درخواست دے رہے ہیں۔‘‘
ایک اور عنصر جو اس مسئلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے وہ ان افغانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے جو گزشتہ سال افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان سے ویزا کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں۔ اسلام آباد میں جرمن سفارت خانہ ان افغانوں کی درخواستوں پر کارروائی کا بھی ذمہ دار ہے، جس سے ویزہ کے عملے پر کام کا بہت بھاری بوجھ پڑ رہا ہے اور ویزہ کے عمل میں تاخیر ہو رہی ہے۔
اسامہ ملک کے مطابق، ''ان تمام عوامل نے مل کر ویزا درخواستوں کو ایک بوجھ بنا دیا ہے جسے اسلام آباد میں جرمن سفارتی مشن مؤثر طریقے سے اور تیزی سے حل کرنے میں ناکام نظر آتا ہے، جس کے نتیجے میں بہت سے حقیقی طلباء وقت پر اپنی کلاسوں میں شامل ہونے سے قاصر ہیں۔‘‘
رواں ماہ کے آغاز پر پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے اپنے دورہ جرمنی کے دوران کہا تھا کہ ویزوں کا مسئلہ ایک بڑی تشویش کا باعث ہے اور اسلام آباد کو امید ہے کہ وہ ''اس حوالے سے مسلسل بات چیت کے ذریعے اس عمل کو مزید آسان بنانے کے قابل ہو گا۔‘‘
پاکستان کے تعاون پر شکر گزار ہیں، جرمن وزیر خارجہ
ان کی جرمن ہم منصب انالینا بیئربوک نے سات اکتوبر کوایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ یہ مسئلہ ان کی وزارت کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔ انہوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کا وعدہ کیا۔
ہارون جنجوعہ ( ش ر، اب ا)