جرمن پولیس کن حالات میں آتشیں اسلحے سے فائرنگ کر سکتی ہے؟
20 جون 2020اٹھارہ جون کو شمالی جرمن شہر بریمن میں ایک چاقو بردار شخص پر پولیس کی فائرنگ کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے حکام نے تفتیش شروع کر دی ہے۔ مقامی حکام کے مطابق چاقو سے مسلح شخص نے پہلے ایک پولیس اہلکار پر حملہ کیا تھا اور اس کے بعد اس پر گولی چلائی گئی تھی۔ یہ شخص زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں دم توڑ گیا۔ مقامی حکام نے اس پورے واقعے کو ایک 'نفسیاتی سماجی بحران‘ قرار دیا ہے۔
ایسا ہی ایک اور واقعہ رواں برس جنوری میں بھی یش آیا تھا۔ مغربی شہر گَیلزن کِرشن کے ایک تھانے کے باہر ڈنڈے اور چاقو سے مسلح ایک شخص پر پولیس نے اس وقت چار گولیاں فائر کی تھیں، جب اس نے پولیس پر حملے کی کوشش کی تھی۔ یہ شخص بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا تھا۔ پولیس کے مطابق حملہ آور دماغی خلل کا مریض تھا۔
ذہنی امراض کے حامل افراد کے خلاف پولیس کی جانب سے طاقت کے ایسے استعمال کی مذمت کی گئی تھی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جرمنی میں پولیس کا کسی مشتبہ ملزم یا حملہ آور پر گولی چلانا کوئی عام بات نہیں ہے اور خاص طور پر اس وقت جب ایسے کسی واقعے کا موازنہ امریکا اور دیگر ممالک میں پیش آنے والے واقعات سے کیا جاتا ہے۔
جرمن پولیس کا فائرنگ کرنے کا اختیار
جرمن قانون بندوق یا کسی گَن کے ذاتی استعمال کو محدود کر دیتا ہے اور اس وجہ سے پولیس اہلکاروں کی طرف سے گولی چلانے کے واقعات بھی کم پیش آتے ہیں۔ مشتبہ افراد کے پاس آتشیں اسلحے اور اس کے استعمال کے قوی امکان کی صورت ہی میں پولیس کو ہتھیار اٹھانے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ بظاہر جرمنی میں پولیس کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتیں بہت کم ہیں لیکن حالیہ برسوں میں پولیس کی مشتبہ افراد پر فائرنگ کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
پولیس کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتیں
کثیر الاشاعت جرمن اخبار 'بِلڈ‘ نے پولیس ڈیٹا کی بنیاد پر لکھا ہے کہ سن 2019ء میں چودہ افراد پولیس کے ہاتھوں مارے گئے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد انتیس رہی تھی۔ اگر ان ہلاکتوں کی تصدیق ہو جاتی ہے تو گزشتہ پانچ برسوں میں جرمن پولیس کی فائرنگ سے مرنے والوں کی تعداد دوگنا ہو چکی ہے۔
گزشتہ برس جرمن پولیس نے سڑسٹھ مرتبہ آتشیں ہتھیار استعمال کیے جب کہ سن 2018 میں ایسا چھپن مرتبہ ہوا تھا۔
ڈیوٹی کے دوران دستیاب ہتھیار
جرمن پولیس یونیورسٹی کی خاتون ترجمان مَیشتِھلڈ ہاؤف کے مطابق ڈیوٹی پر موجود ملکی پولیس اہلکاروں کے پاس دستیاب اور قابل استعمال ہتھیاروں میں پستول لازمی شامل ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ہر پولیس اہلکار کے پاس ایک ڈنڈا، مرچوں والا اسپرے اور ایک اسٹن گَن بھی ہوتی ہے۔ پستول کے علاوہ پولیس اہلکاروں کو ریوالور یا بندوق رکھنے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ ترجمان کے مطابق کسی بھی خاتون یا مرد پولیس اہلکار کو کئی مواقع پر بہت سنجیدہ نوعیت کے فوری فیصلے کرنا ہوتے ہیں اور ان کی تربیت بھی اسی پہلو سے کی جاتی ہے۔
پیچیدہ پولیس قوانین
جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں کی اپنی اپنی پولیس اور وفاقی پولیس سے متعلق قوانین میں فرق پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات یکساں ہے کہ پولیس کو تمام امکانات استعمال کرنے کے بعد کسی بھی مشتبہ شخص کو قابو کرنے کے لیے گولی چلانے کی اجازت بالکل آخری حل کے طور پر ہی ہوتی ہے۔
صوبوں باویریا اور نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے قوانین میں تو یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ فائرنگ صرف اسی وقت کی جائے، جب کوئی مشتبہ فرد خود کو پولیس کے حوالے کرنے سے انکاری ہو اور گولی لگنے سے اس کی جان چلے جانے کا خطرہ نہ ہو۔
چند وفاقی ریاستوں میں اس سے قبل انتباہ بھی لازمی قرار دیا گیا ہے اور کسی ہجوم میں کھڑے کسی بھی مشتبہ شخص پر گولی چلانے کی ممانعت ہے۔ گولی چلانے کے حوالے سے برلن اور شلیسوِگ ہولشٹائن کے صوبوں اور وفاقی پولیس کے ضابطے مقابلتاﹰ زیادہ صوابدیدی ہیں۔
پولیس کی تربیت کا لازمی حصہ: اخلاقیات
جرمنی میں پولیس اہلکاروں کی بنیادی تربیت تین سال کے عرصے پر محیط ہوتی ہے۔ اس دوران زیر تربیت افسروں پر بار بار واضح کیا جاتا ہے کہ کسی بھی ملزم کو زیر کرنے کے لیے گولی چلانا بالکل آخری حربہ ہوتا ہے۔
اس تربیتی عمل میں 'شوٹنگ اور شوٹنگ سے اجتناب‘ کے اسباق بھی واضح طور پر شامل ہوتے ہیں۔ تاہم زیر تربیت اہلکاروں کو آتشیں ہتھیاروں کے استعمال کی ٹریننگ پوری طرح دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف حالات میں عام لوگوں کے ساتھ بہت نرمی سے بات کرنے پر بھی خصوصی تربیتی توجہ دی جاتی ہے۔
ریبَیکا اشٹاؤڈن مائر (ع ح / م م)