جرمن چرچ عہدیداروں کو مہاجرین کی مدد کے الزام میں جرمانہ
6 جون 2021جرمن گرجا گھروں نے کئی دہائیوں کے دوران سینکڑوں مہاجرین کو پناہ دی ہے۔ جنوبی جرمنی کی ننز یا راہباؤں کی ایک فرانسسکن خانقاہ کی ایک نن جولیانا زیلمن کو اس ہفتے کئی سو یورو کا جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے پناہ کی متلاشی نائجیریا سے تعلق رکھنے والی دو خواتین کو غیر قانونی رہائش فراہم کی۔
نن جولیانا کا کہنا ہے کہ انہوں نے جن دو خواتین کو رہائش فراہم کرنے میں مدد کی ان دونوں کو اٹلی میں جبری جسم فروشی کا سامنا تھا جس سے بچنے کے لیے انہوں نے جرمنی کی راہ لی اور یہاں آنے میں کامیاب ہوئیں۔ جرمنی آکر انہوں نے 'چرچ اسائلم‘ یعنی چرچ میں پناہ لے لی۔
جرمن کلیساؤں کی جانب سے مہاجرین کو زیادہ تحفظ کی فراہمی
چرچ میں پناہ
کلیسا میں پناہ کا مطلب عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ پناہ کے متلاشی ایسے افراد جنہیں ملک بدری کے خطرات کا سامنا ہو، انہیں عارضی طور پر پناہ دی جائے۔ اس کا مقصد انفرادی پناہ گزینوں کے لیے سیاسی پناہ یا امیگریشن کی مسترد شدہ درخواستوں پر نظرثانی کے لیے وقت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جرمنی میں چرچ میں پناہ دینے کے عمل کی ایک طویل تاریخ ہے۔جرمنی: تارکین وطن کی اجتماعی ملک بدریوں میں اضافے کا مطالبہ
2015 ء سے 2016 ء کے دوران جب جرمنی میں مہاجرین کی بہت بڑی تعداد کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو بہت سے پناہ گزینوں کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔ 2018 ء کی پہلی سہ ماہی میں گرجا گھروں نے 498 ایسے افراد کو جلاوطن ہونے سے بچایا تاہم 2019 ء میں حکام نے چرچ کی پناہ میں موجود تمام تارکین وطن کے کیسز مسترد کر دیے تھے۔ اُدھر جرمنی کے کلیساؤں کے پادریوں اور راہباؤں نے وفاقی جرمن آئین کی شق نمبر چار کا ہمیشہ حوالہ دیا جس کے تحت آئین ہر انسان کے عقیدے اور ضمیر کی آزادی کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ جرمن آئین کے اس آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے نن جولیانا زیلمن نے بھی نائجیریا کی دو خواتین کو چرچ میں پناہ دینے کے اپنے عمل کا دفاع کیا۔
جرمنی: سیاسی پناہ کے متلاشی افراد پر 600 سے زائد حملے
جرمن استغاثہ کا موقف
جرمن پراسیکیوٹرز کا موقف ہے کہ چرچ کے احاطے کے اندر کسی کو کوئی قانونی استثنیٰ یا خصوصی حیثیت حاصل نہیں ہے چنانچہ کلیسا کے اندر پناہ گزینوں کو پناہ دینے والے متعدد پادریوں اور راہباؤں کو جرمن قانون کی خلاف ورزی کے الزامات کے تحت ان کیسز کی قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نن جولیانا زیلمن پر جس کیس کے تحت جرمانہ عائد کیا گیا، یہ گزشتہ چند سالوں کے اندر اپنی نوعیت کا تیسرا کیس ہے۔
جرمنی: پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد کیا کیا جا سکتا ہے؟
ایک منفرد کیس
جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا کی ایک راہباؤں کی خانقاہ کی سربراہ میشتھلڈ تھیورمر گزشتہ برس یعنی 2020 ء میں جرمن اخباروں کی شہ سرخی بنیں جس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے کئی عشروں میں درجنوں مہاجرین کو پناہ دی۔ 2020 ء میں ان پر جلاوطنی سے بچانے کے لیے غیر قانونی طور پر ان افراد کی مدد کرنے کے الزام میں ان پر ڈھائی ہزار یورو جرمانہ عائد کیا گیا۔ راہباؤں کی خانقاہ کی سربراہ میشتھلڈ تھیورمر کے بقول بہت سے افراد نے انہیں یہ پیشکش کی کہ وہ ان کے جرمانے کی رقم ادا کر دیں گے تاہم انہوں نے اس پیشکش کو ہمیشہ رد کیا اور وہ جرمانا ادا کرنا ہی نہیں چاہتیں وہ اس سے انکار کرتی ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، ''پناہ کے متلاشی افراد انتہائی خوفناک صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں۔ انہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
جرمنی: ڈبلن قوانین کے تحت ریکارڈ تعداد میں ملک بدریاں
میشتھلڈ تھیورمر اپنے موقف کی دلیل دیتے ہوئے کہتی ہیں، ''آخر کار کوئی جرمن عدالت کسی کو مدد کرنے کی کوشش کا قصور وار نہیں ٹھہرا سکتی۔ یہ مسیحی عقیدے سے تعلق رکھنے والے کا سب سے بڑا فرض ہے۔‘‘ راہبا میشتھلڈ تھیورمر کے بقول ''مدد کی پاداش میں کسی کو قصور وار قرار دینا اور اس کے خلاف فیصلہ کرنا سرا سر غیر انسانی ہوگا۔‘‘
انہوں نے جرمن آئین کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا، ''ہر فرد کی عزت برابر ہے۔ آئین ہر فرد کی بات کرتا ہے ، ہر جرمن کی نہیں۔‘‘
کس مہاجر کو کب جرمنی بدر کیا جائے گا؟
2019 ء میں ایک پروٹسٹنٹ پادری اُلرش گامپرٹ کو جنوبی جرمنی کی ایک عدالت نے تین ہزار یورو کے جرمانے کی سزا سنائی تھی کیونکہ انہوں نے ایک ایسے افغان مہاجر کو پناہ دی تھی جس کی ملک بدری کا وقت طے ہو چُکا تھا۔
سیاسی پناہ کی تلاش اور مذہب کی تبدیلی
جرمنی میں 2005 ء میں ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جس کے تحت پناہ کے متلاشی افراد کے ایسے انفرادی کیسز کی دوبارہ جانچ پڑتال کرنا تھا جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چُکی ہوں۔ یہ پناہ کے درخواست دھندگان کے معاملات پر دوبارہ نظر ثانی کے قانونی امکانات فراہم کرنے کا سبب بنا تھا۔
ک م / اب ا (کرسٹوف اسٹراک)