جزیرہ ایسٹر
زمین پر سب سے دور دراز واقع جزیرے کو جزیرہ ایسٹر کہا جاتا ہے۔ زمین کے اس ٹکڑے کو آخر کیوں ایک مذہبی تہوار کا نام دیا گیا ہے ؟
آنکھیں کھولیں!
یہ جزیرہ 1772ء میں دریافت ہوا تھا۔ اس وقت ایسٹر کے دن تھے اور اس جزیرے کو ایسٹر کا نام دے دیا گیا۔ یہ جزیرہ 24 کلومیٹر لمبا اور 13 کلومیٹر چوڑا ہے۔ جنوبی پیسیفک میں واقع یہ جزیرہ 1888 سے چلی کی ملکیت ہے۔
طاقتور
جزیرہ ایسٹر بحر الکاہل میں ایک جزیرے کے طور پر ابھر کر آیا۔ زلزلے یا آتش فشاں کے پھٹنے سے زیر زمین گیسیں ابھر کر اوپر آتی ہیں، جن کے نیتجے میں زمینی سطح پہاڑ کی صورت میں ابھر جاتی ہے۔ اسی طرح تین آتش فشانوں کے پھٹنے سے جزیرہ ایسٹر وجود میں آیا۔
خاموش آتش فشاں
دریں اثناء اس جزیرے کے آتش فشاں ایکٹیو نہیں ہیں اور اسی وجہ سے یہاں کے رہائشیوں کے لیے خطرہ بھی نہیں ہیں۔ آج کل زیر زمین پانی بغیر کسی خطرے کے پمپوں سے نکالا جاتا یے۔
بڑے اور خوبصورت
پتھروں سے بنے یہ موائی نامی مجسمے تقریبا 20 میٹر بلند ہیں۔ مقامی باشندوں نے انہیں 17 ویں صدی میں بنایا اور اس کا مقصد اپنے مشہور آباؤاجداد کی عزت کرنا تھا۔ 1995 سے یہ موائی مجمسے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہیں۔
روایتی تہوار
روایتی تہوار آج بھی اس جزیرے پر منائے جاتے ہیں۔ مختلف قسم کے مقابلے بھی ان تہواروں کا ایک حصہ ہیں۔ جسم پر نقش و نگاری کا بھی مقابلہ کروایا جاتا ہے۔ آج بھی تقریبا چھ ہزار افراد اس جزیرے پر آباد ہیں۔
منفرد
ٹورو میرو درخت صرف ایسٹر جزائر پر پایا جاتا ہے۔ ماضی میں اس کی لکڑی پر تصویریں بھی کندا کی جاتی تھیں۔ اب یہ درخت جنگلوں میں ناپید ہیں اور نباتیاتی باغات میں خصوصی طور پر اگائے جاتے ہیں۔
مہمان سوٹی ٹیرن
موسم بہار کے آغاز کے ساتھ ہی سوٹی ٹیرن نامی پرندے اس جزیرے کا رخ کرتے ہیں۔ یہ انڈے دینے کے لیے چٹانوں میں چھوٹے چھوٹے سوراخ تلاش کرتے ہیں۔ چٹانوں میں گھونسلے ان کے بچوں کی پرورش کے لیے بہتریں جگہیں ہیں۔
انڈوں کی تلاش
انہی ایسٹر کے دنوں میں اس جزیرے پر مردوں کے مابین انڈے تلاش کرنے کا مقابلہ ہوتا ہے۔مقابلے میں شریک افراد پانی میں تیرتے ہوئے چٹانوں تک پہنچتے ہیں اور سوٹی ٹیرن کے انڈے تلاش کرتے ہیں۔ جو سب سے پہلے انڈا تلاش کر لیتا ہے، مقابلے کا ونر قرار پاتا ہے۔