جسم فروش خواتین کو نکاح یا جیل کی پشکش
22 دسمبر 2013اس اقدام کا مقصد جسم فروشی کا خاتمہ، بغیر نکاح کے بچوں کی پیدائش میں کمی اور بیوہ خواتین کی مدد کرنا بتایا گیا ہے۔ نائیجریا کے شہر کانو میں حکومت کی طرف سے اجتماعی شادیوں کی تقریب ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے، جب شرعی قوانین کے ذمہ دار اداروں کی طرف سے کارروائیاں تیز کر دی گئی ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران ہزاروں ایسے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن کے ’لباس مناسب‘ نہیں تھے، جو جسم فروشی اور شراب بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ چند روز پہلے ہی قبضے میں لی گئی دو لاکھ چالیس ہزار شراب کی بوتلوں کو توڑا گیا ہے۔
ان اجتماعی شادیوں کی تقریب کے موقع پر کانو کے نائب گورنر عبدالہیٰ عمر کا کہنا تھا، ’’ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے زناء بہت عام ہو رہا ہے اور یہ قابل تشویش بات ہے۔ جسم فروشی کے کاروبار اور بغیر نکاح کے بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ رجحان ایک معاشرے کے لیے خطرناک ہے۔‘‘
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق اجتماعی شادیاں ان غیر شادی شدہ ان نوجوانوں کے لیے نعمت سمجھی جاتی ہیں، جو شادی کے اخراجات اٹھانے کے متحمل نہیں ہو سکتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی جسم فروشی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ نائیجریا میں ایسے نوجوان مسیحیوں اور مسلمانوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جو شادی کے لیے مہر یا پھر روایتی طور پر آنے والے اخراجات اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ ان علاقوں میں نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحیوں کی بھی اجتماعی شادیوں کا رجحان سامنے آ رہا ہے۔ شمالی نائیجریا میں حسبہ نامی اسلامی ادارے سے منسلک امینو ابراہیم کے مطابق غربت کی وجہ سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اندازوں کے مطابق شمالی نائیجریا میں ہونے والی پچاس فیصد شادیوں کا انجام طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔
طلاق دینا مشکل
اجتماعی شادیوں کی تقریب میں شامل دولہوں کو حسبہ کی اجازت کے بغیر طلاق دینے کی اجازت نہیں ہو گی اور طلاق دینے کی صورت میں دولہا کو تقریبا 50 ہزار نیرہ (313 ڈالر) کا جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ حکام کے مطابق گھر میں صرف تین مرتبہ طلاق کا لفظ کہہ دینا بہت آسان ہے اور وہ ایک عدالتی عمل کے تحت اس عمل کو ذرا مشکل بنانا چاہتے ہیں۔ حکام کے مطابق سب کو چوائس دی جاتی ہے کہ وہ اپنے لیے کسی مناسب مرد یا مناسب خاتون کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
حسبہ بورڈ کے پلاننگ حکام کے مطابق جسم فروش خواتین کو دو آپشن دی جاتی ہیں یا تو وہ اجتماعی شادی میں حصہ لینے کے لیے کسی مرد کا انتخاب کر سکتی ہیں یا پھر انہیں جیل جانا ہو گا۔ حسبہ بورڈ کی پلاننگ ڈائریکٹر عائشہ آتیکو کہتی ہیں، ’’جسم فروشی کرنے والی گرفتار خواتین شادی نہ کرنا چاہیں تو انہیں زبردستی شادی پر رضامند نہیں کیا جاتا اور اگر وہ رضامند ہو جائیں تو انہیں اجتماعی شادی کا حصہ بنا لیا جاتا ہے۔‘‘ اس مرتبہ تقریبا 35 خواتین کو حکومتی تقریب میں شادی کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ یہ خواتین یا تو حاملہ تھیں یا پھر ایڈز سے متاثر تھیں۔
نائیجریا کے وسطی شہر مینا میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ڈوروتھے آکینوا کا کہنا ہے کہ اکثر بیوہ خواتین کو خاندان سے ہی الگ کر دیا جاتا ہے، بعض اوقات تو ان کے بچے بھی چھین لیے جاتے ہیں۔ ڈوروتھے آکینوا کے مطابق ان کا تولیدی صحت اور جنسی حقوق کے لیے کام کرنے والا بین الاقوامی ادارہ بیوہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ روایتی طور پر اسلامی ادارے بھی مرد ہی کی حمایت میں فیصلے سناتے ہیں، جس کے نتیجے میں زیادہ تر بیوہ خواتین یا تو جسم فروشی یا پھر سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور کر دی جاتی ہیں۔ گزشتہ جمعرات سے کانو کی سڑکوں پر بھیک مانگنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
جہیز حکومت کی طرف سے
ان اجتماعی شادیوں میں بیوہ خواتین بھی شامل کی جاتی ہیں۔ حکومت کی طرف سے 10 ہزار نیرہ ( تقریبا 65 ڈالر ) دولہا کو مہر ادا کیا جاتا ہے اور خاتون کو گھر کے لیے ضروری برتن دیے جاتے ہیں۔ گزشتہ 18 ماہ میں چار ہزار چار سو اکسٹھ جوڑوں کی شادیاں کی جا چکی ہیں۔