جسٹس صاحبہ! ذرا سنبھل کے
24 جنوری 2022کئی عشرے پہلے جب عائشہ اے ملک نے اپنے والد ارشد مسعود کو اپنے اس ارادے سے آگاہ کیا کہ وہ قانون کے شعبے کو اپنا کیریئر بنانا چاہتی ہیں تو شعبہ قانون کی مشکلات سے شناسائی رکھنے والے جسٹس عائشہ کے والد نے اس پر خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا بلکہ وہ یہ سن کر بہت متفکر ہوئے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ جسٹس عائشہ کو اپنے لیے کسی اور شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے۔ وقت گزرا۔ زمانہ بدلا۔ جسٹس عائشہ ہارورڈ لاء سکول، کیمبرج، میساچوسٹس، امریکا وغیرہ سے اپنی تعلیم مکمل کر کے جب پاکستان واپس پہنچیں تو انہوں نے اس دور کے نامور قانون دان فخرالدین جی ابراہیم کی لاء فرم کو جوائن کر لیا۔ چند ہی سالوں میں اپنی محنت اور قابلیت سے انہوں نے قانون کے حلقوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔اس پر جسٹس عائشہ کے والد نے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
پچپن سالہ جسٹس عائشہ اے ملک آئینی معاملات، بینکنگ، ٹیکس اور انسان حقوق کے امور پر دسترس رکھتی ہیں۔عائشہ اے ملک ہائی کورٹس، ضلعی عدالتوں، بینکنگ کورٹ، سپیشل ٹربیونل اور ثالثی ٹربیونل میں پیش ہو چکی ہیں۔ انہیں انگلینڈ اور آسٹریلیا میں خاندانی قانون کے معاملات میں ماہر کے طور پر بھی بلایا جاتا رہا ہے، وہ غربت کے خاتمے کے پروگرامز، مائیکرو فنانس پروگرامز اور مہارتوں کے تربیتی پروگرامز میں شامل این جی اوز کے لیے مشیر بھی رہ چکی ہیں۔
مردوں کی بالادستی والے پاکستانی معاشرے میں کسی خاتون کے لیے اپنے کیریئر میں ترقی کرنا آسان خیال نہیں کیا جاتا۔ خود قانون کے شعبے میں ماتحت عدالتوں میں تو خواتین ججز کی کچھ تعداد موجود ہے لیکن پالیسی سازی اور اہم عہدوں پر خواتین کی تعیناتی کی حوصلہ افزائی کی روایت بہت کم ہے۔
جسٹس عائشہ کا سپریم کورٹ تک پہنچنے کا سفر بھی آسان نہیں تھا۔ ایک مرتبہ لاہور ہائی کورٹ میں ایک وکیل صاحب جسٹس عائشہ کی عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس عائشہ کیسز کے غیر ضروری التوا اور عدالتی نظم و ضبط کے حوالے سے سخت گیر بتائی جاتی ہیں۔ وکیل صاحب کسی بات پر خفا ہو گئے اور انہوں نے جج صاحبہ اور پاس کھڑی خاتون لاء افسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ دونوں بکواس کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے جو گالیاں دیں ان کا یہاں تحریر کیا جانا بھی مناسب نہیں۔ جسٹس عائشہ نے ان وکیل صاحب کو توہین عدالت کا نوٹس دیا۔ آس پاس کے لوگوں نے جسٹس صاحبہ کو سمجھایا کہ آپ ایک خاتون ہیں آپ کو ایسی صورتحال سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہائی کورٹ کے فل بنچ نے ان وکیل صاحب کا لائسنس معطل کر دیا۔ وہ صاحب سپریم کورٹ گئے اور چند لمحوں میں لاہور ہائی کورٹ کا وکیل صاحب کے لائسنس کی معطلی کا فیصلہ کالعدم ہو گیا ۔
پچھلے دس سالوں میں لاہور ہائی کورٹ کی جج کے طور پر جسٹس عائشہ نے ہزاروں کیسز کے فیصلے کیے۔ ان میں خواتین کا کنوارہ پن جانچنے کے لیے 'ٹو فنگر ٹیسٹ‘ کا مقدمہ، جس میں انہوں نے اسے نامناسب اور خواتین کے لیے تکلیف دہ مرحلہ قرار دے کر ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ شوگر ملوں کے خلاف ان کے اس فیصلے کو بھی کافی شہرت ملی جس میں انہوں نے شوگر ملوں کی طرف سے کاشتکاروں کے واجبات کی ادائیگی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔ میڈیکل کالجوں میں طالبات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر میڈیکل کالجوں میں کوٹہ سسٹم رائج کرنے کے حوالے سے دائر کیے جانے والے ایک کیس میں انہوں نے فیصلہ سنایا کہ میرٹ پر آنے والی بچیوں کا میڈیکل کالجوں میں راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ اینٹوں کے بھٹوں سے متعلقہ ایک کیس میں انہوں نے بھٹہ مالکان کو بھٹوں میں فضائی آلودگی روکنے کے اقدامات کرنے کا بھی حکم سنایا تھا۔ کتا مار مہم کے حوالے سے ایک کیس میں انہوں نے جانوروں کے حوالے سے ملکی قوانین کی پابندی کی سفارش کی۔
پاکستان بار کونسل اور لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے ان کی نامزدگی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ بار کونسلز کے مطابق دیگر تین ججز کو 'نظر انداز‘ کر کے چوتھی سینیئر جج کو سپریم کورٹ میں ترقی دینا مناسب نہیں۔ پاکستان بھر کی وکلا تنظیموں نے اپنے باہمی اختلافات کے باوجود مشترکہ طور پر 6 جنوری کو ملک بھر میں عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ اس پر پاکستان کے ایک سینیئر تجزیہ نگار مجیب الرحمن شامی نے کہا تھا کہ ملکی قانون کے مطابق ججوں کی تعیناتی کے لیے سینیارٹی کی شرط لازمی نہیں اور ان کے بقول اب تک 41 ججز سینیارٹی کے بغیر لیکن کارکردگی پر ترقی پا چکے ہیں۔
جسٹس عائشہ کے سپریم کورٹ کا جج بننے پر دنیا بھر سے ان کے لیے مبارکباد کے پیغامات آ رہے ہیں۔ میرے خیال میں جسٹس عائشہ کو مبارکباد کے پیغامات کی نہیں بلکہ انصاف کی فراہمی کی جدوجہد میں ثابت قدم رہنے کی دعا دینی چاہیے۔ کہ اب سپریم کورٹ کا جج ہونا کوئی پھولوں کی سیج نہیں۔بلکہ ایک بہت بڑی آزمائش بھی ہے۔ اب بہت سے حلقے جسٹس عائشہ کی کارکردگی کو تنقیدی طور پر جانچنے کی کوشش کریں گے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔