جعفر ایکسپریس کی بوگی میں دھماکہ، 13 مسافر ہلاک
8 اپریل 2014منگل آٹھ اپریل کی صبح نو بجے جعفر ایکسپریس کوئٹہ سے راولپنڈی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ دوپہر تقریباﹰ ایک بج کر 10 منٹ پر ٹرین کوئٹہ سے جب 150 کلومیٹر دور سبّی کے مقام پر پہنچی تو ریلوے سٹیشن پر وقتی قیام کے دوران اس کی بوگی نمبر نو میں دھماکہ ہو گیا جس سے یہ بوگی مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ اور نتیجے میں 13 مسافر موقع پر ہلاک جبکہ 40 افراد زخمی ہو گئے۔ زخمیوں میں سے بیشتر کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے اس لیے ہلاکتوں میں اضافے کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ہلاک شدگان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
اس دھماکے کو پاکستانی صوبہ بلوچستان کے ضلع قلات میں پیر سات اپریل کو عسکریت پسند بلوچ باغیوں کے خلاف ہونے والے آپریشن کا رد عمل قرار دیا جا رہا ہے۔ پیر کے روز ہونے والے اس آپریشن میں 50 کے قریب علیحدگی پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے بقول دھماکے کے وقت ٹرین میں 80 مسافر سوار تھے اور یہ ٹرین کوئٹہ سے سخت حفاظتی انتظامات میں روانہ کی گئی تھی ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران کے دوران ان کا مزید کہنا تھا: ’’بہت افسوسناک واقعہ ہے۔ میں شدید مذمت کرتا ہوں اس بزدلانہ کارروائی کی۔ جو لوگ حقوق کے نام پر مذموم جنگ لڑ رہے ہیں اور بے گناہ مسافروں، بچوں، خواتین اور اپنے ہم وطنوں پر حملے کر رہے ہیں اور ان کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے ہیں، کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ حقوق کی یا محرومی کی جنگ ہے۔ یہ خالصتاﹰ دہشت گردی ہے اور کچھ نہیں۔‘‘
خواجہ سعد رفیق نے مزید بتایا کہ جعفر ایکسپریس پر ہونے والے بم حملے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور یہ معلوم کیا جا رہا ہے کہ ٹرین میں بم کہاں نصب کیا گیا: ’’پچھلے ڈیڑھ دو ماہ سے بلوچستان میں ریلوے کی پٹریوں پر دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے اس حوالے سے ایف سی پولیس اور بی آر پی کے سا تھ مل کر جامع سکیورٹی پلان تیار کیا ہے۔ یہ ٹرین جب کوئٹہ سے چلتی ہے تو راستے میں کولپور، مچھ، آب گم اور دو تین دیگر اسٹیشنوں پر رکتی ہے۔ ہم اس بات کا اب جائزہ لے رہے ہیں کہ ٹرین میں یہ بم کہاں نصب کیا گیا اور دہشت گردوں نے کن خامیوں سے فائدہ اٹھایا۔‘‘
جعفر ایکسپریس کو ماضی میں بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں بھی بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی میں پٹری پر دھماکے کے نتیجے میں اس ٹرین میں سوار سات افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
پاکستانی صدر ممنون حسین بھی بلوچستان کی اس کشیدہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ہنگامی طور پر آج منگل آٹھ اپریل کو کوئٹہ پہنچے ہیں۔ جہاں انہیں محکمہ داخلہ کی جانب سے اہم سکیورٹی امور کے بارے میں بریفنگ دی گئی اور عسکریت پسندوں کے خلاف ہونے والی کارروائی اور پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔