1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جمہوریت محض انتخابات کا نام ہی نہیں

23 جولائی 2018

پاکستان کا جمہوری سفر مسلسل مشکلات کا شکار ہے۔ انتخابات کو دیکھیے تو اب تک خودکش دھماکے، میڈیا پر پابندیاں اور دباؤ، سیاست دانوں کی گرفتاریاں اور مذہبی انتہا پسندوں کا بڑھتا ہوا سیاسی کردار خاصے پریشان کن حقائق ہیں۔

https://p.dw.com/p/31wD2
Shada Islam - Bloggerin
تصویر: Privat

صرف موجودہ صورت حال ہی نہیں، پاکستان کی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ سے سیاست اور سیاست دانوں پر اثرانداز ہوتی ہیں، سیاسی اکھاڑپچھاڑ کرتی ہیں، بنیادی فیصلے کرتی ہیں، انتخابات کے دوران جانبداری کرتی ہیں اور میڈیا پر دباؤ ڈالتی ہیں۔   

ان تمام حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے بھی تین حقائق سے انکار ممکن نہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ تمام تر مشکلات اور نشیب و فراز کے باوجود پاکستان میں جمہوریت نے اپنی ساکھ بہتر بنا لی ہے۔ پاکستان کی جمہوریت یقیناً نقائص سے پاک نہیں اورغیرمنظم بھی ہے لیکن آخری تجزیے میں یہ ایک مزاحمتی عمل ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسکا کریڈٹ سیاست دانوں کو نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کو جاتا ہے۔  

دوسری بات یہ کہ اگرچہ فوج کا ملکی تحفظ کے لیے ’ مضبوط فوجی طاقت کی ضرورت اور دشمنوں اور انکی سازشوں سے متعلق پرانا بیانیہ ابھی تک توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے لیکن اب اس سے بھی انکار ممکن نہیں رہا کہ محض فوجی طاقت پاکستان کے مسائل حل کرنے کے لیے کافی نہیں۔ پاکستان کے کئی بڑے مسائل مثلا غربت، معاشی انحطاط، ماحولیاتی تبدیلی، خواتین کی ترقی وغیرہ فوج حل نہیں کر سکتی۔ ان مسائل کے حل کے لیے فوج کو پاکستانی معاشرے اور ریاست کے مختلف شعبوں میں باہمی تعاون اور جنوبی ایشیائی ہمسایوں سے، مسابقت کی بجائے تعاون درکار ہے۔    

Indien Wahlen 2014 10.04.2014 Jammu
تصویر: UNI

تیسری بات یہ ہے کہ جمہوریت محض انتخابات کا نام نہیں۔ یقینا انتخابات کو آزادانہ اور شفاف ہونا چاہیے جیسا کہ امید ہے کہ پاکستان کے آئندہ انتخابات ہوں گے، لیکن نتائج آنے اور نئی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد بنیادی توجہ شفاف اور موثر حکمرانی پر ہونی چاہیے۔ اکیسویں صدی کی پائیدار جمہوریت مضبوط ادروں پر قائم ہوتی ہے جس میں منتخب نمائندوں کے پاس،عملی طور پراور پالیسی سطٰح پر، حقیقی اختیار ہونا چاہیے اور فوج کو بیرکوں میں رہنا چاہیے۔ دوسری طرف جمہوریت ایسے سیاست دانوں کا تقاضا کرتی ہے جوعوام کے مفادات کو اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات پر ترجیح دے اور جو ملکی قوانین کا احترام کرنے پر تیار ہو۔

پاکستان واحد ملک نہیں جہاں سیاستدان ایک دوسرے سے دست و گریبان اور نعرہ بازی کی سیاست کرنے والے سیاست دان اورفوج طاقتورہے۔ دنیا کے بہت سے دیگر ممالک میں بھی ایسے سیاست دان موجود ہیں جو اپنے ذاتی مفادات اور نمود و نمائش میں اسقدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ اپنے قومی فرائض اور ووٹروں، دونوں کو بھلا دیتے ہیں۔ مضبوط جمہوریتوں کو ایماندار اور باوقار پریس، ایک متحرک اور باشعور سول سوسائٹی، انتھک  بلدیاتی اور شہری انتظامیہ اور خواتین، نوجوانوں اور لسانی اقلیتوں کی شرکت درکار ہوتی ہے۔  

آئیے میڈیا سے شروع کریں۔ صحافیوں کے خلاف دشمنی کا مسلسل اظہار اور  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور انکے وسطی و مشرقی یورپی دوستوں اور مداحوں کی مسلسل ہرزہ سرائی دنیا بھر میں رپورٹروں کو ’’عوام کے دشمن‘‘ قرار دینے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ اس نوعیت کے حملے صرف صحافت کو نہیں بلکہ جمہوریت کو کمزور کر رہے ہیں۔ جی ہاں، ہمیں جھوٹی خبروں اور بے بنیاد پراپیگنڈہ کو مسترد کرنا چاہیے جو دنیا بھر میں انتخابات اور سیاست دانوں کی ساکھ پر اثرانداز ہوتا ہے۔  

Pakistan Kandidat für Peshawar Sikh Sardar Radesh Singh Toni
تصویر: DW/F. Khan

لیکن پاکستان میں جمہوریت کو اور بھی خطرات لاحق ہیں۔ صحافیوں اور سیاست دانوں کے خلاف منفی پراپیگنڈہ نفرت انگیز خیالات کا پرچار کرنے والوں اور انتہا پسند نظریات کے حامل افراد اورتنظیموں کو مضبوط کرتے ہیں۔ مذید براں، اس قریب المرگ جمہوریت کو بحال کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ 'ہیرو' ڈھونڈنے ترک کرکے اس بات پر توجہ دی جائے کہ  کس طرح عام لوگ اس دنیا کو تبدیل کر رہے ہیں۔   

اب وقت آ گیا ہے کہ اس روایتی تصور کو ترک کر دیا جائے کہ سیاسی جماعتیں ہی دراصل جمہویت ہے اور یہ کہ جمہوریت کا مطلب صرف یہ ہے کہ کون الیکشن جیتتا ہے۔ پاکستان میں اور دنیا بھر میں سیاست دانوں نے بھی اس دنیا کو تقسیم در تقسیم کرنے اور عالمی سیاسی مکالمے کو خام اور کھوکھلا رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ سیاست دانوں کی باہمی چپقلشوں کے دوران یہ عام آدمی ہے جو اس دنیا کو بدل رہا ہے۔ بدقسمتی سے یہ عام آدمی شہہ سرخیوں میں نہیں آتا، اور اچھی خبریں یوں بھی شازونادر ہی جگہ پاتی ہیں، لیکن یہی عام آدمی ہے جو مساوی حقوق کا مطالبہ کر رہا ہے، انتہا پسندی سے لڑرہا ہے، ہمسایوں سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے، تعلیم دے رہا ہے، تخلیق کر رہا ہے اور مفاد عامہ کے لیے اپنے مفاد کو داؤ پر لگا رہا ہے۔  

غور سے دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ نام نہاد ’مرد آہن‘ دراصل بہت خوف زدہ ہوتے ہیں اور اپنے ہی لوگوں خصوصاً عاصمہ جہانگیر جیسے انسانی حقوق کے کارکنوں سے ڈرتے ہیں۔ مزید براں، جمہوریت اسی وقت مضبوط ہوگی اور اسی صورت میں پھلے پھولے گی جب معاشرے میں خواتین، نوجوانوں اور اقلیتوں کی شمولیت یقینی بنائی جائے گی۔

حقوق نسواں کی تحریک پہلے ہی زور پکڑ رہی ہے حتیٰ کہ ان ممالک میں بھی جہاں عورتوں کو ہمیشہ پیچھے رکھا گیا ہے۔ جب پاکستان میں خواتین اپنے حقوق اور اختیارات کے حصول کے حوالے سے پراعتماد ہوں گی تو وہ حقیقی معنوں میں معاشرے کے روایتی خیالات اور رویوں کو تبدیل کردیں گی۔ بنیادی ترین بات یہ ہے کہ جمہوریت کا انحصار اس بات پر ہے کہ دیہات، قصبوں اور شہروں میں کیا ہو رہا ہے۔ اکیسویں صدی کے حقیقی ہیرو قومی سیاست دان نہیں بلکہ مقامی سیاست دان ہیں۔ یہ وہ خواتین و حضرات ہیں جنہیں روزمرہ کے مسائل کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ 

اس لیے آئیے جمہوریت کے تسلسل کا جشن منائیں اور قومی، صوبائی اور بلدیاتی سطح پر ووٹ ڈالیں لیکن اس بات کو کبھی فراموش نہ کریں کہ جمہوریت کوئی ایسا ’احسان‘ نہیں جو ’حکمران‘ اپنی ’رعایا‘ پر کرتے ہیں۔ تمام دنیا کی طرح پاکستان میں بھی جمہوریت سیاست دانوں کی بازپرس کرنے، آزاد میڈیا کا تحفظ کرنے، طاقت کے سامنے کلمہ حق کہنے اور خواتین، نوجوانوں، اقلیتوں سمیت، ہر کسی کو مساوی حقوق دینے کا نام ہے۔

 

بلاگ: شادا اسلام

ترجمہ: شیراز راج