جنرل کیانی کے دورہ چین کا مقصد ’باہمی مشاورت‘
6 جنوری 2012جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بیجنگ میں چین کے وزیراعظم سمیت اہم فوجی قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق جنرل کیانی کے پانچ روزہ دورہ چین کے موقع پر دونوں ممالک کے درمیان دفاعی اور سیکورٹی کے شعبوں میں تعلقات کا جائزہ لیا جائے گا۔
امریکی فورسز نے گزشتہ برس مئی میں پاکستانی علاقے ایبٹ آباد میں دہشت گرد گروہ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کو خفیہ آپریشن میں ہلاک کر دیا تھا۔ اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں تلخی پیدا ہوئی۔ پھر نومبر میں پاکستانی کی سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے حملے میں اس کے چوبیس فوجی ہلاک ہوئے۔ یہ واقعہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید کشیدگی کا باعث بنا۔
تجزیہ کار جنرل کیانی کے دورہ چین کا تعلق انہی حالات سے جوڑتے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسڈیز میں قائم چائنا سینٹر کے ڈائریکٹر فضل الرحمٰن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’’پاکستان کی جو پارلیمان ہے اس نے مستقبل میں امریکہ کے ساتھ بات چیت اور تعلقات کے لیے سفارشات تقریباً تیار کر لی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس دورے میں دیگر امور کے ساتھ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے بھی بات ہوگی، اور پاک چین تعلقات کی جو ایک روایت ہے اس کے مطابق کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے سے قبل دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح پر مشاورت کی جاتی ہے تو میرا خیال ہے کہ اس دورے کا ایک اہم پہلو باہمی مشاورت بھی ہے۔‘‘
گزشتہ دو دہائیوں میں چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور تعاون میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور متعددمشترکہ فوجی اور اقتصادی منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے۔ 2007ء میں چین پاکستان کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا تھا۔ دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر)طلعت مسعود کے مطابق پاکستان پہلے ہی اپنی دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لئے چین پر انحصار کر رہا ہے۔انہوں نے نے کہا: ’’دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون کے اہم منصوبوں میں 2001 ء میں الخالد ٹینک، 2007 ء میں لڑاکا طیارے "جے ایف -17 تھنڈر"، 2008 ء میں "ایف-22 پی" فریگیٹ اور "کے-8 قراقرم" ایڈوانسڈ تربیتی طیاروں کی تیاری اور دفاعی میزائل پروگرام میں قریبی اشتراک شامل ہے۔‘‘
دونوں ممالک کی افواج نے گزشتہ دسمبر میں پاکستانی شہر جہلم کے قریب مشترکہ فوجی مشقیں بھی کی ہیں جس کا مقصد انسدادِ دہشت گردی کے لیے باہمی تعاون کا فروغ قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان اور چین کے درمیان جوہری توانائی کے میدان میں تعاون کے سمجھوتے پر 1984 ء میں دستخط کیے گئے تھے، جس کے بعد سے دونوں ممالک اس شعبے میں ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون کرتے آئے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ بھارت کی طرز پر سویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے تبادلے کا معاہدہ کرنے سے انکار کے بعد چین نے گزشتہ برس پاکستان کوجوہری توانائی کےلیے دو پلانٹس کی تعمیر میں مدد فراہم کرنے کا معاہدہ کیا۔
پاکستان کی بندرگاہ گوادر بھی چینی تعاون سے ہی تعمیر کی گئی ہے۔ 2002 ء میں آغاز کیے گئے 248 ملین ڈالر کے اس مشترکہ پراجیکٹ کے لیے چین نے 198 ملین ڈالر اور بندرگاہ کی تعمیر کے تمام مراحل میں تکنیکی مدد فراہم کی۔
اس وقت کئی چینی کمپنیاں پاکستان میں تیل و گیس، آئی ٹی اور ٹیلی کام، توانائی، انجینئرنگ، آٹو موبائلز اور انفراسٹرکچر اور کان کنی کے شعبوں میں کام کررہی ہیں ۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے بعد بیرونی دنیا مین پاکستان کے لئے اس وقت سب سے اہم سہارا چین ہی ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: ندیم گِل