جنسی زیادتی کے ممکنہ مرتکب افراد کے لیے کلینک
11 فروری 2015درد، دکھ، جبر اور شرم کی بات، جن خواتین سے زنا بالجبر کیا جاتا ہے، وہ اپنی ساری زندگی ایسے واقعات کو یاد کرتے اور اذیت محسوس کرتے گزار دیتی ہیں۔ سن دو ہزار تیرہ میں جرمنی کی سات ہزار چار سو سے زائد خواتین نے ملک بھر کے تھانوں میں اپنے ساتھ زنا بالجبر کی شکایات درج کرائیں جبکہ ایسے مجرمانہ واقعات کی اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
جنسی تھراپسٹ اُووے ہارٹمان کا کہنا ہے کہ ایسے جنسی حملوں کو روکا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے ممکنہ مجرم کا ابتدائی مرحلے ہی میں علاج ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے ہارٹمان جرمن شہر ہینوور میں اپنا ایک کلینک بھی کھولنے والے ہیں، جہاں ایسے افراد کا علاج کیا جائے گا، جن کے دلوں میں زنا بالجبر کی شدید خواہش پیدا ہوتی ہے۔
تاہم اس منصوبے کے لیے فنڈز اکٹھے کرنا آسان نہیں ہوگا، کیونکہ ابھی تک ایسی بہت کم ہی سائنسی تحقیق کی گئی ہے، جس میں جنسی زیادتی یا ریپ کو موضوع بنایا گیا ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب تک یہ کہا جا رہا ہے کہ ایسے افراد کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری جانب ہارٹمان کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ اخلاقیات کا نہیں بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ہم ایسی نفسانی خواہشات رکھنے والے افراد تک رسائی کیسے حاصل کر سکتے ہیں اور ہم ایسے لوگوں کو کیا دے سکتے ہیں، کیا علاج کی صورت میں ان کی مدد کی جا سکتی ہے؟
ہارٹمان کے مطابق ایسے افراد خود بیمار ہوتے ہیں اور اذیت کی حد تک مسلسل نفسانی خواہشات میں مبتلا رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمیں یہ معلوم کرنا چاہیے کہ ایسی سوچیں کیوں پیدا ہوتی ہیں؟ کیا یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے، جیسے کہ مخصوص افراد کو کسی نابالغ بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے؟‘‘ ان کے بقول ایک باقاعدہ تحقیقاتی منصوبے کے تحت ایسے بہت سے سوالات کے جواب تلاش کیے جانے چاہییں۔
جنسی تھراپسٹ اُووے ہارٹمان گزشتہ تین برسوں سے ایسے افراد کا بھی علاج جاری رکھے ہوئے ہیں، جو بچوں کے ساتھ جبری جنسی عمل کی بیماری کی حد تک شدید خواہشات کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کی زیادہ تر جنسی توجہ نابالغ بچوں کی طرف ہی رہتی ہے۔ ایسے افراد اپنا اصلی نام بتائے بغیر اور بالکل مفت علاج کروا سکتے ہیں۔ اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایسے مردوں کا، ان کی طرف سے بچوں کے ساتھ جنسی رابطوں یا پھر بچوں کی فحش فلمیں دیکھے بغیر، ذہنی علاج کیسے کیا جا سکتا ہے؟
اُووے ہارٹمان کہتے ہیں کہ ایسے افراد کے ساتھ انفرادی اور مشترکہ نفسیاتی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایسے افراد کو اس وقت اپنے علاج کے سلسلے میں امید کی کرن نظر آتی ہے، جب انہیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ایسی کیفیات صرف ان پر ہی طاری نہیں ہوتیں۔
اس تھراپی میں ایسی وجوہات کو تلاش کیا جاتا ہے، جن کی بنیاد پر بچوں سے جنسی زیادتی کرنے سے متعلق خیالات ذہن میں جنم لیتے ہیں۔ تاہم یہ بھی واضح ہے کہ ایسے افراد پر تھراپی سے زیادہ ان ادویات کا اثر ہوتا ہے، جو جنسی خواہشات کو دباتی ہیں۔