جنوبی ایشیا جرمن پریس کی نظر میں
12 جون 2011اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے ایک ماہ بعد ایک ڈرون حملے میں القاعدہ کا ایک اور سرکردہ رہنما الیاس کشمیری بھی مارا گیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے کشمیری کا نام ایک خوفناک کمانڈر اور منصوبہ ساز کے طور پر سامنے آ رہا تھا۔ کشمیری کی موت کو اِس دہشت گرد تنظیم کے لیے ایک اور شدید دھچکہ قرار دیتے ہوئے سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ سے شائع ہونے والا اخبار ’نوئے زیوریشر سائی ٹُنگ‘ لکھتا ہے:
’’القاعدہ کے دیگر سرکردہ ارکان کو اب اپنی سلامتی کی سنجیدگی سے فکر کرنی چاہیے۔ زیادہ تر انتہا پسند گروپ شمالی وزیرستان سے اپنی کارروائیاں عمل میں لا رہے ہیں۔ اگرچہ ابھی بھی پاکستانی فوج شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کرنے سے گریز کر رہی ہے لیکن امریکہ غالباً انٹیلیجنس معلومات کے تجزیے اور ڈرون طیاروں کے ذریعے نگرانی کے شعبے میں بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ اب امریکہ پاکستانی سرزمین پر جا کر بھی دہشت گردوں کے تعاقب کے لیے تیار نظر آتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے تمام تر تنقید کے باوجود امریکہ نے سرحدی علاقے میں متعدد دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ تاہم دیگر دہشت گردوں کے برعکس الیاس کشمیری کو پاکستانی فوج بھی ایک دشمن کے طور پر دیکھتی تھی چنانچہ اس بار پاکستان کی جانب سے بھی امریکی کارروائی پر تنقید کی بجائے زیادہ تر خاموشی ہی اختیار کی گئی۔‘‘
برلن سے شائع ہونے والے اخبار ’ٹاگیز اشپیگل‘ کے مطابق پاکستان کا بھی مفاد اسی میں تھا کہ کشمیری کو ہلاک کر دیا جائے۔ اخبار لکھتا ہے: ’’گزشتہ ہفتے قتل ہونے والے صحافی سلیم شہزاد نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ بائیس مئی کو کراچی کی نیول ایئر بیس پر دہشت گردوں کے ہنگامہ خیز حملے کے پیچھے کشمیری اور اُس کے ساتھیوں کا ہاتھ تھا اور یہ کہ کچھ اندر کے لوگوں نے بھی حملہ آوروں کی مدد کی تھی۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے دو روز بعد شہزاد کو تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا گیا۔ جہاں کچھ حلقوں کے خیال میں اس قتل کے پیچھے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے، وہاں دیگر حلقوں کے خیال میں یہ کام القاعدہ اور آئی ایس آئی میں اُس کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے عناصر کا ہے۔ اگر دوسری بات سچ ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان کے اس سکیورٹی ادارے کے اندر طاقت کی ایک خطرناک کشمکش چل رہی ہے۔
اُسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر سرکردہ رہنماؤں کی ہلاکت سے پاکستانی فوج کے اندر مختلف دھڑوں کے مابین کشمکش اور شدت اختیار کر جائے گی۔ شہزاد نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ القاعدہ پاکستانی افواج کے اندر سرایت کر جانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ امریکہ اور پاکستان مزید سرکردہ دہشت گردوں کو نشانہ بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ افغانستان کا دعویٰ ہے کہ طالبان رہنما ملا محمد عمر پہلے سے آئی ایس آئی کے ہاتھوں میں ہے۔
پاکستانی صحافی سلیم شہزاد ’ایشیا ٹائمز آن لائن‘ کے پاکستانی دفتر کا انچارج تھا اور اٹلی کے خبر رساں ادارے ادنکرونوس کے لیے بھی کام کرتا تھا۔ اخبار ٹاگیز اشپیگل نے ہی اپنے ایک اور مضمون میں لکھا ہے کہ کم ہی کسی صحافی کو آئی ایس آئی اور دہشت گردوں کے درمیان روابط کا اتنا گہرا علم ہو گا، جتنا کہ سلیم شہزاد کو تھا لیکن کیا اسے اِس لیے جان سے ہاتھ دھونا پڑے کہ اُسے ان باتوں کا حد سے زیادہ علم ہو گیا تھا؟ اخبار لکھتا ہے:
’’یہ واقعہ محض ایک اور قتل سے کہیں زیادہ ہے۔ بہت سے حلقوں کے خیال میں یہ خونریز واقعہ اور بے پناہ تشدد کے نتیجے میں مسخ شُدہ لاش تمام صحافیوں اور ناقدین کے لیے ایک انتباہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر عادل نجم کے خیال میں ’یہ پورے معاشرے کی زبان بند کر دینے کی ایک کوشش ہے‘۔ پاکستانی حکومت میڈیا کی حفاظت کرنے سے کس حد تک قاصر ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُس نے صحافیوں کو اپنے ساتھ آتشیں اسلحہ رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔‘‘
پاکستان کے بعد ذکر بھارت کا، جہاں پولیس نے بدعنوانی کے خلاف ہزاروں افراد کے اُس احتجاجی مظاہرے کو لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے ذریعے منتشر کر دیا، جس کی قیادت دو گُرو کر رہے تھے۔ اس حوالے سے اخبار ’فرانکفرٹر الگمائنے‘ لکھتا ہے:
’’گزشتہ موسم گرما سے بھارتی حکومت کو بدعنوانی کے ایک کے بعد دوسرے اسکینڈل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تاہم اپوزیشن کا کوئی بھی اقدام وزیر اعظم من موہن سنگھ کے لیے پریشانی کا باعث نہیں بن سکا تھا۔ اب یہ کارنامہ دو گُرو انجام دے رہے ہیں، جن کے حامی یوگا کی عوامی مشقوں اور بھوک ہڑتالوں میں حصہ لیتے ہیں اور یوں اس مطالبے کی پُر زور تائید کر رہے ہیں کہ بدعنوانی کے خلاف جنگ تیز تر کر دی جائے۔‘‘
رپورٹ: امجد علی
ادارت: امتیاز احمد