جنوبی ایشیا: سوشل میڈیا پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ القاعدہ سے آگے
19 جون 2015روئٹرز نے یہ بات مقامی تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتائی ہے اور کہا ہے کہ عالمی سطح پر یہ دونوں عسکریت پسند گروپ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں۔ روئٹرز کے اس تجزیے میں بتایا گیا ہے کہ اب طالبان کے اُن غیر مطمئن دھڑوں نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی جانب دیکھنا شروع کر دیا ہے، جو اس بات سے بہت ہی متاثر ہوئے ہیں کہ کتنی تیز رفتاری کے ساتھ اس دہشت گرد تنظیم نے شام اور عراق میں علاقے اپنے قبضے میں لیے ہیں۔ اس جائزے کے مطابق ایسے کوئی ٹھوس شواہد البتہ موجود نہیں ہیں کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ طالبان کو کوئی مادی مدد بھی فراہم کر رہی ہے۔
جنوبی ایشیا میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی اس بڑھتی ہوئی مقبولیت کا نقصان القاعدہ کو ہو رہا ہے، جس کا نظریہ اور غیر ملکی جنگجو حالیہ برسوں کے دوران مقامی کمانڈروں کے لیے پُر کشش رہے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران مسلسل ڈرون حملوں کی وجہ سے القاعدہ کا ڈھانچہ بہت زیادہ کمزور ہوا ہے اور اس کے روایتی اثر و رسوخ میں بے پناہ کمی ہوئی ہے۔
عالمی سطح پر سرگرم تجزیہ کار ادارے آئی ایچ ایس کنٹری رِسک کے ایشیائی امور کے شعبے کے سربراہ عمر حامد کہتے ہیں:’’طالبان اور القاعدہ ایک طرح سے مکمل طور پر منظر سے ہَٹ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سی ویب سائٹس ’اسلامک اسٹیٹ‘ (آئی ایس) کا پلیٹ فارم بن چکی ہیں۔‘‘
افغانستان میں حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے مخالف چند ایک افغان کمانڈر آئی ایس کے ساتھ وفاداری کا اعلان کر چکے ہیں۔ دیگر سرے سے اس بات کو چیلنج کرتے ہیں کہ طالبان کا قائد ملا عمر ابھی تک زندہ ہے۔
پاکستان میں بھی طالبان کے کچھ دھڑوں نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ساتھ وابستگی کا اعلان کرتے ہوئے ایک فوجی کا سر قلم کر دیا اور یہ ویڈیو انٹرنیٹ پر پوسٹ کر دی۔ رواں ہفتے افغان طالبان نے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیڈر کو ایک خط لکھا اور اُس پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں اپنے لیے نئے عسکریت پسندوں کی بھرتی کا عمل روک دے۔
عمر حامد نے روئٹرز کو بتایا:’’بارہ مہینے پہلے اردو اور پشتو زبانوں میں زیادہ تر سوشل میڈیا وَیب سائٹس پر ستّر فیصد مواد جنوبی ایشیائی جہادی گروپوں کے بارے میں تھا لیکن گزشتہ سال ستمبر تک ان وَیب سائٹس کے اُس مواد کی شرح پچانوے فیصد تک پہنچ گئی تھی، جو آئی ایس سے متعلق تھا۔‘‘
خود عمر حامد کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ انسدادِ دشت گردی پولیس کا ایک افسر رہ چکا ہے۔ روئٹرز کے مطابق عمر حامد نے ٹویٹر اور فیس بُک پر عسکریت پسندوں کی درجنوں وَیب سائٹس اور اکاؤنٹس کا تجزیہ کیا ہے۔
روئٹرز کے مطابق پاکستانی حکومت نے بار بار جہادی وَیب سائٹس پر پابندی لگانے کی بات کی ہے لیکن درحقیقت ان میں سے زیادہ تر بدستور آن لائن ہیں۔ روئٹرز کے رابطہ کرنے پر پاکستان کی ٹیلی کام اتھارٹی کے ایک ترجمان یہ نہ بتا پائے کہ عسکریت پسندوں کی اب تک کتنی وَیب سائٹس پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔
پاکستان دارالحکومت اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک فاٹا ریسرچ سینٹر کے سربراہ سیف اللہ محسود نے کہا کہ القاعدہ کے مقابلے پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو بلاشبہ زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی جا رہی ہے:’’اسلامک اسٹیٹ نیا پوسٹر بوائے ہے لیکن یہ نظریہ اس سے بہت پہلے سے یہاں موجود ہے۔‘‘