جنوبی ایشیا میں خواتین اب رکشہ ڈرائیور بھی
پاکستان ہو بھارت یا پھر بنگلہ دیش، بات جب رکشہ چلانے کی ہو تو فوری طور پر مرد رکشہ ڈرائیور ہی ذہن میں آتا ہے لیکن اب ان جنوب ایشیائی ممالک میں خواتین بھی پراعتماد طریقے سے رکشے چلا رہی ہیں۔
خواتین سواریوں کی خاتون ڈرائیور
چھایا موہیتی ممبئی کی اولین خواتین رکشہ ڈرائیوروں میں سے ایک ہیں۔ چھایا کو یہ رکشہ بھارتی حکومت کی خواتین کو معاشی طور پر خود مختار کرنے کی ایک اسکیم کے تحت ملا ہے۔
سیکھنے کا دور
ممبئی کی یہ خاتون حکومت کے خواتین کی بہبود کے ایک منصوبے کے تحت رکشہ چلانے کی تربیت حاصل کر رہی ہیں۔ تربیت کے ابتدائی مرحلے یہ خاتون بہت احتیاط سے ایکسیلیٹر پر پاؤں رکھتے ہوئے رکشے کو آگے بڑھا رہی ہیں۔
رکشوں کے ساتھ تصویر
اس تصویر میں انڈیا کی خواتین رکشہ ڈرائیور اپنے رکشوں کی سرکاری رجسٹریشن سے پہلے اُن کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر بنوا رہی ہیں۔ اب سے پہلے تک رکشہ چلانا مردوں کے دائرہ کار میں آتا تھا لیکن اب خواتین اس میدان میں بھی اُن سے پیچھے نہیں۔
بنگلہ دیش کی ’کریزی آنٹی‘
بنگلہ دیش کی واحد خاتون رکشہ ڈرائیور مسمات جیسمین بڑے انداز سے چٹاگانگ کی گلیوں میں اپنے مسافروں کو لیے گھومتی رہتی ہیں۔ بنگلہ دیشی خواتین کے لیے تو وہ ایک مثال بن ہی چکی ہیں لیکن اُن کے بے باکانہ انداز پر وہ اپنے شہر چٹاگانگ میں ’کریزی آنٹی‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہیں۔
مسمات جیسمین
مسمات کا رکشہ طاقتور بیٹری سے چلتا ہے۔ ان کے رنگا رنگ رکشے میں بیٹھنے والے تمام افراد ہی ان کی ڈرائیونگ سے بہت مطمئن ہیں۔
گلابی رکشہ اسکیم
پاکستان میں ایک غیر سرکاری تنظیم نے خواتین کو خود مختار کرنے کے ارادے سے ’پنک رکشہ‘ اسکیم کا آغاز سن دو ہزار پندرہ میں کیا تھا۔ اس تصویر میں پاکستان کے شہر لاہور میں ایک خاتون کو اپنی روزی کمانے کے لیے گلابی رکشہ چلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
مزید اقدامات کی ضرورت
پاکستان میں گلابی رکشہ اسکیم سے کئی خواتین مستفید ہو رہی ہیں لیکن اب بھی وہاں روزگار کے اس شعبے میں عورتوں کا حصہ مردوں سے کہیں کم ہے اور اس طرح کے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔