جنوبی کوریائی وزیر دفاع مستعفی، کشیدگی برقرار
25 نومبر 2010جنوبی کوریا کے وزیر دفاع کِم ٹائے یونگ نے شمالی کوریائی حملے سے پیدا شُدہ صورتِ حال کے تناظر میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور صدر لی میونگ بک نے اُن کا استعفیٰ منظور بھی کر لیا ہے۔ انہوں نے اپنا استعفیٰ مئی میں صدر کو پیش کر رکھا تھا جس کی منظوری اب دی گئی ہے۔
صدر کی سربراہی میں منعقدہ ایک خصوصی سکیورٹی میٹنگ میں ملکی دفاع سے متعلق اہم فیصلے کئے گئے ہیں، جن کی روشنی میں جزیرے یون پیونگ پر مزید فوجی کمک روانہ کر دی گئی ہے۔ شمالی کوریا کی ساحلی پٹی کے بالکل سامنے، بحیرہ زرد کی متنازعہ سمندری حدود کے قریب واقع جزیرے Yeonpyeong پر مزید فوج متعین کرنے کے علاوہ اس کے ارد گرد واقع پانچ چھوٹے جزائر پر بھی جنوبی کوریائی فوجوں کی تعیناتی کا حکم دے دیا گیا ہے۔ فوج کے بنیادی قواعد و ضوابط میں نظرثانی کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں شمالی کوریا کی جانب سے کسی بھی فوجی مہم جوئی کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔ شمالی کوریا کو حکومت اور پرائیویٹ کمپنیوں کی جانب سے دی جانے والی امداد کے عمل پر بھی عوامی رد عمل کے تناظر میں مکمل نظر ثانی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
شمالی کوریا کے حکام نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ اگر سیول حکومت نے اشتعال انگیزی کا عمل جاری رکھا، تو پیونگ یانگ کی توپوں سے مزید گولے برسائے جا سکتے ہیں۔
اگلے اتوار سے جنوبی کوریا اور امریکہ کی مشترکہ فوجی مشقوں پر چین کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ چین نے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام سے متعلق چھ ملکی مذاکرات کا عمل فوری طور پر شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ابھی تک چین کی جانب سے جنوبی کوریا پر شمالی کوریائی گولہ باری کی مذمت سامنے نہیں آئی ہے۔
خطے میں ایک اور سفارتی پیش رفت یہ ہے کہ جاپانی وزیر خارجہ سیجی میہارا نے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے ساتھ ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت میں اس بات پر اتفاق کیا کہ اگلے دنوں میں جنوبی کوریائی ہم منصب سے ملاقات کر کے خطے کے حوالے سے پالیسیوں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ یہ ملاقات امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ہو گی۔ کلنٹن اور جاپانی وزیر خارجہ کا خیال ہے کہ کوریائی جزیرہ نما میں کشیدگی کے خاتمے کے لئے چین کا کردار بہت اہم ہے۔
دوسری جانب جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اتوار سے امریکہ کے ساتھ شروع ہونے والی مشترکہ فوجی مشقیں اصل میں شمالی کوریا کے لئے ایک انتباہی پیغام کے مترادف ہیں۔ جمعرات کو جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ میں شمالی کوریا کے توپ خانے کی گولہ باری کی مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ دو روز قبل شمالی کوریا کی جانب سے جنوبی کوریائی جزیرے پر توپوں سے 80 گولے داغے گئے تھے۔ ان کی وجہ سے دو فوجی اور دو عام شہریوں کی ہلاکت کے علاوہ ڈیڑھ درجن افراد زخمی بھی ہوئے۔ مجموعی طور پر 22 عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: امجد علی