جنگجوؤں کی آن لائن بھرتی کیسے روکیں؟ سڈنی کانفرنس
11 جون 2015وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے انتہا پسندی کے انسداد کے لیے منعقدہ ایک ’علاقائی کانفرنس‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسندی کی اُس سوچ کو ختم کرنا ضروری ہے، جس کی وجہ سے باقی دنیا سے عسکریت پسند عراق اور شام کا رخ کر رہے ہیں۔ ٹونی ایبٹ کا کہنا تھا، ’’ ایسے لوگوں سے بات چیت ممکن نہیں آپ ان کے خلاف صرف لڑ سکتے ہیں۔ اس دو روزہ اجلاس میں تیس مختلف ممالک کے علاوہ فیس بک، ٹویٹر اور گوگل کے نمائندے بھی شریک تھے۔ آسٹریلوی وزیراعظم کا کہنا تھا، ’’یہ دہشت گردی مقامی مقاصد کے لیے نہیں ہے بلکہ اس دہشت گردی کے مقاصد عالمی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف موثر دفاع یہی ہے کہ لوگ (داعش میں شمولیت کو ) فضول بات سمجھیں۔ ‘‘
یہ دو روزہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہی ہے، جب امریکی صدر باراک اوباما نے عراق میں داعش سے نمٹنے کے لیے وہاں مزید چار سو پچاس فوجی تربیت کار تعینات کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ سڈنی کانفرنس سے پہلے اسی طرح کی ایک کانفرنس فروری کے دوران واشنگٹن میں ہوئی تھی اور اس کانفرنس میں بھی امریکی صدر نے کہا تھا کہ ان وجوہات سے نمٹا جائے، جن کی وجہ سے نوجوان داعش ایسے گروپوں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ واشنگٹن میں ہونے والی تین روزہ کانفرنس کے دوران بھی کوئی ایسا ٹھوس منصوبہ سامنے نہیں آیا تھا کہ عسکریت پسندی کی طرف لے جانے والی بنیادی وجوہات سے کیسے نمٹا جائے؟
سڈنی کانفرنس میں اس موضوع پر بھی بات کی جا رہی ہے کہ عسکریت پسندوں کے پروپیگینڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے کس طرح سوشل میڈیا، صنعت اور سول سوسائٹی مل کر کام کر سکتے ہیں۔ آسٹریلیا کے اٹارنی جنرل جارج برینڈس کا افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ دہشت گرد سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اپنے ٹارگٹ افراد تک اپنا پروپیگنڈا پہنچا رہے ہیں۔ نتیجتاﹰ دنیا کے ہر کونے سے غیر ملکی جنگجو ان کے ساتھ مل رہے ہیں۔‘‘
اس سے قبل جارج برینڈس کا اسٹریلیا کے چینل نائن سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس کانفرنس میں گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر کی شرکت آئن لائن بھرتیوں کے خلاف ان کے عزائم کو ظاہر کرتی ہے، ’’ میں زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر حکومتوں کے ساتھ تعاون کرتے آئے ہیں تاکہ ان عوام کوسوشل میڈیا کے ذریعے کسی کے ہاتھوں استعمال ہونے سے محفوظ بنایا جا سکے۔‘‘
آسٹریلیا نے گزشتہ برس ملک میں خطرے کی سطح بلند کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ نیشنل سکیورٹی کے نام پر متعدد نئے قوانین متعارف کروائے گئے تھے جبکہ ملکی خفیہ ایجنسیوں اور پولیس کی فنڈنگ میں بھی اضافہ کر دیا گیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق شام اور عراق میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا ساتھ دینے والے تقریباً ایک سو آسٹریلوی شہریوں میں سے تیس ہلاک ہو چکے ہیں۔