’جنگلاتی کیمپ‘ سے مہاجرین کی جزوی بے دخلی
فرانسیسی حکام نے برطانیہ کی طرف جانے والی یورو ٹنل کے قریب مہاجرین کے ’جنگلاتی کیمپ‘ کو ہٹانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں تاکہ وہاں بفر زون قائم کیا جا سکے۔ کیمپ کے رہائشی اب اپنی جمع پونجی بچانے کی کوششوں میں ہیں۔
نئی جگہ کی تلاش
فرانسیسی حکام نے برطانیہ اور فرانس کے درمیان زیر سمندر یورو ٹنل کی طرف جانے والی ہائی وے سے ملحق ایک سو میٹر کا بفر زون بنانے کے لیے ’جنگل کیمپ‘ خالی کیے جانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ اس سلسلے میں رضاکار مہاجرین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔
چوبیس گھنٹے پولیس کی نگرانی
تصویر میں اوپر نظر آنے والی ہائی وے یورو ٹنل کی طرف جاتی ہے۔ مہاجرین برطانیہ پہنچنے کے لیے اس راستے سے گزرنے والے ٹرکوں میں سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پولیس کی بھارتی نفری تعینات ہے تاکہ برطانیہ میں غیر قانونی داخلے کی کوشش کرنے والوں کو روکا جا سکے۔
ہر ممکن طریقے سے
مہاجرین کو یہ جگہ خالی کرنے کے لیے جمعرات تک کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔ یہ بفر زون کب تک مکمل طور پر خالی ہو سکے گا، اس بارے میں حتمی تاریخ کسی کو بھی معلوم نہیں۔ لیکن رضا کار تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ جمعے کے روز تقریباﹰ ایک سو شیلٹرز کو نئی جگہوں پر منتقل کیا گیا۔
نئے علاقے کی صفائی
رضاکار تنظیم Care4Calais کے اراکین مہاجرین کی رہائش کے لیے نئی جگہ صاف کر رہے ہیں۔ اس تنظیم کی رضاکار خاتون روتھ بوگیوتھ کہتی ہیں کہ جب وہ افغانستان میں تھیں، تو انہیں ہر گھر سے محبت ملی اور ان کی مہمان نوازی کی گئی۔ اسی لیے اب وہ ان مہاجرین کی ہر ممکن مدد کرنا چاہتی ہیں۔
بلا تشدد بے دخلی
ابھی تک کچھ مہاجرین کیمپ کے اسی منہدم کر دیے گئے حصے میں رہ رہے ہیں۔ نئے بفر زون کے قیام سے ’جنگلاتی کیمپ‘ میں مقیم تقریباﹰ پندرہ سو سے ساڑھے چار ہزار تک مہاجرین متاثر ہوں گے۔ گزشتہ چار ماہ سے کَیلے میں مقیم افغان مہاجر سیف اللہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنی رہائش نہیں چھوڑے گا۔ لیکن اگر پولیس آئے گی، تو وہ بغیر کسی مزاحمت کے وہاں سے ہٹ جائے گا۔
کنٹینر کیمپ
فرانسیسی حکومت کَیلے کے قریب ہی مہاجرین کے لیے ایک نیا کنٹینر کیمپ تعمیر کر رہی ہے۔ اس نئے کیمپ میں دو ہزار مہاجرین کو رکھا جائے گا لیکن تارکین وطن وہاں جانے کے لیے تیار نہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ وہاں رہائش کے لیے ان کے فنگر پرنٹس لیے جائیں گے اور اس طرح ان کے یورپ میں سیاسی پناہ کے مواقع کم ہو جائیں گے۔
فرانسیسی مزاحمت
شام کے ایک مہاجر محمد شیخ کا کہنا تھا کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ فرانس ان کے ساتھ کیسا سلوک کر رہا ہے، ’’وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بیوقوف ہیں۔ نئے کیمپ کا بہانہ بنا کر وہ ہمارے فنگر پرنٹس حاصل کر لیں گے۔ وہ ایک جیل کی طرح ہے۔ کیمپ میں داخلے کے بعد وہ ہمیں وہاں سے جانے نہیں دیں گے اور میں یہاں فرانس میں رہنا نہیں چاہتا۔‘‘
بڑھتی ہوئی کشیدگی
بفر زون کو خالی کرنے کے نوٹس اور پولیس کی بڑھتی ہوئی نفری کی وجہ سے کیمپ میں لڑائیوں کا سلسلہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اکثر اوقات ڈاکٹروں کو ان مہاجرین کا علاج کرنا پڑتا ہے، جو یا تو آپس کی لڑائیوں میں زخمی ہوئے ہوں یا پھر رات کے وقت پولیس کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں۔
شدید ہوتا ہوا مسئلہ
مہاجرین کو خوف ہے کہ حکومت آہستہ آہستہ ان کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے۔ یہاں سے فرار ہونے والے مہاجرین دیگر جگہوں پر جنگلاتی علاقوں میں کیمپ قائم کر رہے ہیں۔ یہاں کے ایک سو بیس مہاجرین نقل مکانی کر کے بیلجیم میں اپنا ایک نیا کیمپ آباد کر چکے ہیں۔ اب یہ مسئلہ مختلف یورپی علاقوں میں پھیلتا جا رہا ہے۔