جنگلات کے تحفظ کے لئے ایکواڈور کی انوکھی پیشکش
3 نومبر 2010جنگلات زمین کے پھیپھڑے بھی کہلاتے ہیں۔ تحفظ ماحول کی علمبردار تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ہر سال تقریباً تیرہ ملین ہیکٹر یعنی یورپی ملک یونان کے برابر رقبے پر پھیلے جنگلات کاٹ دئے جاتے ہیں۔ اُستوائی خطوں کے جنگلات سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جہاں کاٹے جانے والے جنگلات کی شرح دُنیا بھر کی مجموعی شرح کا 90 فیصد سے بھی زیادہ بنتی ہے۔
جنگلات کاٹنے کی سب سے بڑی وجہ زراعت کے لئے زمین حاصل کرنا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق قدیم جنگلات کا ایک بڑا درخت اتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر سکتا ہے، جو کہ ایک کار پچاس ہزار کلومیٹر کے سفر کے دوران خارج کرتی ہے۔
جنوبی امریکی ملک ایکواڈور کے اُستوائی جنگلات پر مشتمل علاقہ یاسُونی نیشنل پارک حیاتیاتی اعتبار سے دُنیا بھر میں سب سے زیادہ انواع کا حامل ہے اور وہاں کئی قدیم قبائل بھی آباد ہیں۔ اِس پارک کے نیچے زمین میں تقریباً نو سو ملین بیرل خام تیل موجود ہے۔
ایکواڈور کی معیشت کا دار و مدار خام مادوں کی برآمد پر ہے۔ مثلاً یہ ملک ستّر کے عشرے سے خام تیل برآمد کر رہا ہے، یہ اور بات ہے کہ اِس کی معیشت کو اِس سے زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ تحفظ ماحول اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں آج کل ٹیکساکو نامی ادارے کے خلاف حیاتیاتی حوالے سے تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ لڑ رہی ہیں۔ اِن تنظیموں کا کہنا ہے کہ اِس ادارے نے جنگلات تباہ کئے ہیں اور اِسے زرِ تلافی کے طور پر ایکواڈور کو 27 ارب ڈالر ادا کرنے چاہئیں۔
اب کوئیٹو حکومت نے ایک انوکھی پیشکش کی ہے کہ وہ یاسُونی نیشنل پارک کے نیچے موجود معدنی تیل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زمین کے اندر ہی رہنے دے گی بشرطیکہ بین الاقوامی برادری یا نجی شعبہ اِس تیل سے متوقع آمدنی کا نصف یعنی تقریباً 350 ملین ڈالر سالانہ ایکواڈور کو ادا کرے۔
دیکھا جائے تو یہ پیشکش اقوام متحدہ کے اُس پروگرام کے عین مطابق ہے،جس کا مقصد ترقی پذیر ملکوں میں جنگلات کی تباہی کو کم کرنا ہے اور جو مختصراً REDD یعنی رَیڈ کہلاتا ہے۔ تاہم ابھی تک بین الاقوامی برادری نے اِس پیشکش پر زیادہ گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا ہے۔ البتہ اِسی پروگرام کے تحت ناروے نے انڈونیشیا کے ساتھ ایک ارب ڈالر کا ایک ماحولیاتی معاہدہ طے کیا ہے، جس کے تحت جکارتہ حکومت قدرتی جنگلات کو صاف کرنے کے اجازت ناموں پر دو سال تک کی پابندی عائد کرنے پر راضی ہو گئی ہے۔
رپورٹ : امجدعلی
ادارت : افسراعوان