1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جنگل‘ کے مہاجرین: عزت فقط موت میں ہے

عاطف توقیر21 مئی 2016

یہ افراد اپنے اپنے ملکوں میں جنگوں اور غربت سے تنگ آ کر ایک بہتر زندگی کے خواب لیے ہجرت کر کے شمالی فرانس کے بندرگاہی علاقے کَیلے پہنچے، تاہم اگر ان مہاجرین کو کسی طرح کا احترام مل سکتا ہے، تو فقط موت سے۔

https://p.dw.com/p/1IsDM
Frankreich Calais Flüchtlinge Jungle Camp Räumung
تصویر: Reuters/P.Rossignol

نو مئی کو ایک پاکستانی مہاجر کَیلے میں ایک سڑک پر ایک گاڑی کی ٹکر سے ہلاک ہو گیا۔ شمالی فرانس کے بندرگاہی شہر Calais کی یہ مہاجر بستی ’جنگل‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اسی شہر میں چینل ٹنل کے نام سے وہ زیر سمندر سرنگ بھی شروع ہوتی ہے، جو فرانس اور برطانیہ کو آپس میں ملاتی ہے اور ان مہاجرین کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح یہ ٹنل عبور کر کے برطانیہ پہنچ جائیں۔ تاہم دونوں ممالک کی جانب سے زبردست سکیورٹی انتظامات کی وجہ سے یہ مہاجر اس سرنگ کے قریب تک بھی نہیں جا سکتے۔

گزشتہ برس جون سے اب تک ایک وسیع علاقے پر پھیلی اس بدنام مہاجر بستی ’جنگل‘ میں 30 مہاجر ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ افراد ٹرینیوں کے نیچے کچلے گئے، کچھ کو برقی تاروں نے ہلاک کر دیا اور کچھ ڈوب کر مر گئے۔ فرانس سے برطانیہ پہنچنے کی ایک خوف ناک جدوجہد ہے، جس کا عمومی نتیجہ ایک خوف ناک موت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ کچھ مہاجر رودبار انگلستان یا ’انگلش چینل‘ عبور کرنے والے ٹرکوں سے لٹک کر بھی یہ فاصلہ ختم کرنے نکلے مگر یہ ٹرک بس ان کے جسموں کو رگیدتے ہی چلے گئے۔

Frankreich Calais Flüchtlinge Jungle Camp Räumung
یہ کیمپ جنگل کے نام سے بھی مشہور ہےتصویر: Reuters/P.Rossignol

کسی بے نام، بھلا دی جانے والی حالت اور نصیب کے مدمقابل انسانی حقوق کے کارکنان اور طبی حکام ہیں، جو پولیس کے ہم راہ ہلاک ہونے والے مہاجرین کے اہل خانہ کو ڈھونڈتے ہیں، رابطہ کرتے ہیں اور ایک طرف اس بھیانک واقعے کا بتاتے ہیں، تو دوسری جانب حاصل ہونے والی معلومات ان افراد کی قبروں کے کتبوں کو خالی رہنے سے بچا لیتی ہیں۔

ایک طبی امدادی تنظیم سے وابستہ ایک ماہرنفسیات نے خود کو ان مہاجرین کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ اپنا نام بتائے بغیر اس شخصیت کا کہنا تھا، ’’عموماﹰ پولیس مجھے کسی ہلاک ہو جانے والے مہاجر کی تصاویر بھیجتی ہے، میں یہ تصاویر کاغذ پر منتقل کر کے اس جنگل میں ایسے افراد کو کھوجتا پھرتاہوں، جو اسے جانتے ہوں یا جنہیں مرنے والے سے متعلق کچھ علم ہو، پھر شناخت ہو جانے پر ایسے کسی شخص کے آبائی ملک میں اس کے اہل خانہ کو ڈھونڈنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔‘‘

اس ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ غیرقانونی سفر میں ہلاک ہونے والوں کی شناخت میں کبھی کبھی کئی کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔ ’’اس سلسلے میں ہلاک شدگان کی پوری تلاشی لی جاتی ہے کہ کہیں کوئی ایسا کاغذ مل جائے، جس سے اس مہاجر کی شناخت کے بارے میں کچھ نہ کچھ تفصیل یا اشارہ مل جائے۔ مگر کبھی کبھی جنگل کے باسی بھی اپنے کسی گم شدہ ساتھی کو کھوجتے ہمارے پاس آ جاتے ہیں اور اس طرح انہیں اور ہمیں دونوں کو ہلاک ہونے والے مہاجر سے متعلق کچھ تفصیل مل جاتی ہے۔‘‘

کَیلے کے اس مہاجر کیمپ میں قریب پانچ ہزار افراد موجود ہیں، جو ہر روز صبح اس امید کے ساتھ آنکھ کھولتے ہیں کہ شاید آج کے دن کا اختتام پر وہ برطانیہ پہنچ چکے ہوں۔ پھر یہ خواب ہر روز ٹوٹتے ہیں، مگر امید ہے کہ ٹوٹتی ہی نہیں۔