1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگی جرائم کا مقدمہ، کاراچچ غیر حاضر

26 اکتوبر 2009

سابقہ یوگوسلاویہ میں جنگی جرائم کی سماعت کرنے والی بین الاقوامی عدالت نے بوسنی سرب لیڈر رادووان کاراچچ کے خلاف نسل کشی اور دیگر جنگی جرائم سے متعلق مقدمے کی سماعت کل منگل تک کے لئے ملتوی کردی ہے۔

https://p.dw.com/p/KFZ1
کاراچچ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات سے انکاری ہیںتصویر: AP

دی ہیگ میں اِس انتہائی اہم مقدمے کی سماعت آج پیر کے روز پندررہ منٹ سے زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکی کیونکہ کاراچچ اور ان کے وکلاء میں سے کوئی بھی عدالت میں موجود نہیں تھا۔

مقدمے کی سماعت شروع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد اس بین الاقوامی ٹریبیونل کے جج، کوون اوگون نے ملزم کاراچچ کو خبردار کیا کہ انہیں ہرحال میں عدالت میں پیش ہونا چاہیے ورنہ عدالتی کارروائی ان کی غیر موجودگی میں ہی شروع کردی جائے گی۔

اس موقع پر عدالت کی سربراہی کرنے والے جج نے کہا :’’بائیس اکتوبر کو ہم نے ایک خط کے ذریعے کاراچچ پر واضح کردیا تھا کہ وہ اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کریں، جو ظاہر ہے انہوں نے نہیں کیا۔ چیمبر کی دوبارہ خواہش ہے کہ وہ سماعت میں شریک ہوں۔ ایسے قانونی طریقے موجود ہیں، جو اس وقت استعمال کئے جائیں گے، جب کاراچچ اسی طرح عدالتی کارروائی میں مسلسل رکاوٹیں ڈالتے رہیں گے۔‘‘

اس بیان کے بعد دی ہیگ کی عدالت کے اس جج نے مقدمے کی سماعت منگل تک کے لئے ملتوی کردی۔

انیس سو بانوے سے پچانوے تک جاری رہنے والی بوسنی جنگ کے دوران لاکھوں انسان مارے گئے تھے، جن کی بہت بڑی تعداد کا تعلق بوسنی مسلمانوں اور کروآٹ آبادی سے تھا۔

ان انسانوں کی نسل کشی کے الزام میں گرفتار کاراچچ یہ کہہ کر آج پیر کے روز سماعت کے پہلے ہی دن عدالت سے غیر حاضر رہے کہ اُنہیں مقدمےکی تیاری کے لئے مزید وقت درکار ہے۔

بوسنی سربوں کے یہ چونسٹھ سالہ سابقہ رہنما بلقان کی جنگ کےبعد تیرہ سال تک روپوش رہے اور انہیں گزشتہ برس جولائی میں بلغراد میں انہیں گرفتار کیا گیا تھا، جہاں وہ بھیس بدل کر ایک ماہر نفسیات کے طور پر کام کررہے تھے۔ کاراچچ کے بقول، انیس سو چھیانوے میں وہ امریکی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت منظر عام سے غائب ہوئے تھے۔ امریکہ ان کے اس دعوے کی نفی کرتا ہے۔

Karadzic vor Gericht
انیس سو بانوے سے پچانوے تک جاری رہنے والی بوسنی جنگ کے دوران لاکھوں انسان مارے گئے تھےتصویر: AP

کاراچچ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد، یورپی تاریخ کے سب سے سفاکانہ جنگی جرائم کا ماسٹر مائنڈ قراردیا جاتا ہے۔ لیکن وہ خود اپنے خلاف ان الزامات سے انکاری ہیں۔ اس سرب لیڈر کے اِنہی جرائم کے خلاف گواہی دینے کے لئے، بوسنی جنگ میں زندہ بچ رہنے والے ڈیڑھ سو سے زائد شہری بھی ہالینڈ کے شہر دی ہیگ پہنچ چکے ہیں۔ ان افراد نے عدالتی کارروائی میں سست روی پر غم و غصے کا ظہار کیا ہے۔

کاراچچ کی ماتحت سرب فوج نے یوگوسلاویہ سے آزادی کا اعلان کرنے والی ریاست، بوسنیا ہیرسے گووینا کے دارالحکومت ساراژیوو کا تقریبا تین سال تک محاصرہ کئے رکھا تھا، جسے جدید جنگی تاریخ کا طویل ترین محاصرہ قراردیا جاتا ہے۔

طویل انتظار کے بعد اس مقدمے کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز گزشتہ مہینے متوقع تھا تاہم کاراچچ نے ستمبر میں عدالت سےدرخواست کی تھی کہ اس کارروائی کو مزید دس ماہ تک ملتوی کردیا جائے۔ عدالت نے اس درخواست کو مسترد کردیا تھا۔ قانونی ماہرین کے مطابق الزامات ثابت ہوجانے پرکاراچچ کوکم کم از کم عمر قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

رپورٹ : شادی خان

ادارت : مقبول ملک