جنگی ٹینکوں کے بعد یوکرین کے لیے آئندہ لڑاکا طیارے بھی؟
5 فروری 2023کییف نے روس کے خلاف جنگ میں اپنے مغربی اتحادیوں سے جدید جنگی ٹینکوں کا حصول یقینی بنا کر حال ہی میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ یوکرین اب جدید لڑاکا طیاروں کی ترسیل کے اپنے مطالبے کی تجدید کے لیے بھی حوصلہ مند دکھائی دیتا ہے۔
مغربی اتحادی ممالک کی طرف سے جنگی طیاروں کی فراہمی کے کییف کے مطالبے سے متعلق یوکرینی حکام کی اب تک کی جانے والی التجائیں بے نتیجہ ہی رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورتحال بھی تبدیل ہونے کو ہے؟
یوکرین کیا چاہتا ہے اور کیوں؟
گزشتہ فروری میں روس کی جانب سے حملے کے آغاز کے فوراً بعد سے کییف لڑاکا طیاروں کا مطالبہ کر رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ٹینکوں کے معاملے میں اتحادیوں کے فیصلے میں تبدیلی کے بعد یوکرینی وزیر دفاع اولیکسی ریزنیکوف نے کینیڈین نشریاتی ادارے سی بی سی کو بتایا کہ وہ پر امید ہیں کہ اتحادی ممالک جنگی طیارے بھی فراہم کر سکتے ہیں۔ ریزنیکوف نے کہا کہ یہ ایک ’گیم چینجر‘ یعنی پانسہ پلٹ دینے والا قدم ثابت ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ آئندہ ہفتوں میں اس بارے میں بھرپور بات چیت کی توقع رکھتے ہیں۔
جرمنی میں یوکرین کے سفیر اولیکسی میکئیف نے ایک حالیہ انٹرویو میں ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے ملک نے ابھی تک برلن سے کوئی لڑاکا طیارہ فراہم کرنے کی درخواست نہیں کی۔
کییف حکومت کون سے طیارے چاہے گی اور کتنے؟ یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ یوکرین کے نائب وزیر خارجہ آندرے میلنک نے حال ہی میں 'یوکرین کے لیے ایک طاقت ور لڑاکا جیٹ اتحاد‘ کا مطالبہ کیا تھا، جس میں امریکی ساختہ ایف سولہ اور ایف پینتیس، یورو فائٹر، ٹورناڈو، رافال اور گریپن جنگی طیارے شامل تھے۔
جرمن مارشل فنڈ میں ایک سینئر ایسوسی ایٹ برونو لیٹے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایف سولہ خاص طور پر یوکرین کے لیے دلچسپی کے حامل ہیں، کیونکہ بہت سے یورپی ممالک ان کی جگہ نئے F-35 طیاروں کی تلاش میں ہیں۔ انہوں نے کہا، ''بدقسمتی سے یوکرین کے پاس موجود بہت سے لڑاکا طیارے فروری 2022 ء میں جنگی مہم کے آغاز میں ہی تباہ ہو گئےتھے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ باقی بچے کھچے طیارےپرانے اور سوویت دور کے ہیں۔‘‘ لیٹے کے مطابق کییف کے نقطہ نظر سےلڑاکا طیارے مکمل ہتھیاروں کا غائب جز ہیں۔
امریکہ کیا کہتا ہے؟
یوکرین کا سب سے بڑا فوجی حامی امریکہ اس سے پہلے لڑاکا طیارے بھیجنے کی مخالفت کر چکا ہے۔ صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ کییف کو لڑاکا طیارے فراہم نہیں کریں گے۔
وائٹ ہاؤس نے گزشتہ مارچ میں ایک بیان میں کہا تھا کہ یوکرین کی درخواست پر اتحادیوں کی طرف سے سوویت دور کے مگ 29 طیارے فراہم کرنے سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا۔ امریکی محکمہ دفاع کے اس وقت کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ طیارے فراہم کرنے جیسے اقدام کے نتیجے میں ''اہم روسی ردعمل سامنے آ سکتا ہے، جس سے نیٹو کے ساتھ فوجی کشیدگی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔‘‘
تاہم پولیٹیکو نامی ایک نیوز آؤٹ لیٹ نے حال ہی میں اطلاع دی کہ کچھ امریکی فوجی حکام نے اس منتقلی کی حمایت کی ہے اور وہ محکمہ دفاع کے حکام کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ نے پہلے بھی کہا تھا کہ وہ زیلنسکی حکومت کو اپنے ابراہم جنگی ٹینک نہیں بھیجے گا تاہم بعد میں اسے نے اپنا ارادہ بدل لیا تھا۔
جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کیا کہتے ہیں؟
جرمن چانسلر اولاف شولس نے حال ہی میں برلن کی جانب سے یوکرین کو جیٹ طیارے بھجوانے کے امکان کو ایک مرتبہ پھر مسترد کر دیا۔ شولس نے کہا کہ اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک سنجیدہ بحث کی ہے نہ کہ ''بولی لگانے کا مقابلہ، جس میں شاید یوکرین کی حمایت سے زیادہ اندرونی سیاسی مقاصد اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘‘
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر ’’کچھ بھی خارج از امکان نہیں ہے۔‘‘ نیدرلینڈز کے وزیر اعظم مارک رُٹے نے بھی اسی طرح کہا کہ جو چیز ڈلیور کی جا سکتی ہے اس میں''کچھ بھی ممنوع‘‘ نہیں ہے، لیکن لڑاکا طیارے بھیجنا واقعی ایک بڑا قدم ہوگا۔
مغربی اتحادیوں کی طرف سے یوکرین کو لڑاکا طیارے دینے کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے یوکرین کی روسی سرزمین پر قبضہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ تجزیہ کار برونو لیٹے نے اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے، کیونکہ اس سے یوکرین کے لیے روس کے اندر واقع اہداف پر حملہ کرنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔‘‘
روس کیا کہتا ہے؟
اگر مغربی لڑاکا طیاروں کو یوکرین منتقل کیا گیا، تو ماسکو کا ردعمل ممکنہ طور پر شدید ہو گا۔ برلن کی جانب سے یوکرین کے لیے لیوپارڈ ٹو طرز کے ٹینک بھیجنے کے اعلان کے بعد ماسکو نے کہا تھاکہ جرمنی نے دوسری عالمی جنگ میں روس میں نازی جرائم کے حوالے سے اپنی تاریخی ذمہ داری ترک کر دی ہے اور یہ کہ موجودہ تنازعہ مصائب کو مزید بڑھا دے گا۔
جرمنی میں روسی سفیر کا کہنا تھا، ''جرمن قیادت کی طرف سے منظوری کے بعد جرمن کراس کے ساتھ جنگی ٹینک دوبارہ 'مشرقی محاذ‘ پر بھیجے جائیں گے، جو نہ صرف روسی فوجیوں بلکہ شہری آبادی کی ہلاکت کا باعث بھی بنیں گے۔‘‘ ماسکو نے زور دیا کہ اس طرح کی حرکتیں مستقبل میں تعلقات کے معمول پر لائے جانے کو مزید مشکل بنا دیں گی۔
جنگی طیاروں کی فراہمی کا امکان کتنا؟
برونو لیٹے کے خیال میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ کسی مرحلے پر جرمنی سمیت مغربی ممالک یوکرین کو جیٹ طیارے بھیجیں گے۔ انہوں نے لیوپارڈ ٹو ٹینکوں کی مثال اور اس سے پہلے ہیمارس راکٹ لانچروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''یہ پہلی بار نہیں ہو گا کہ ریڈ لائن پار کی جائے گی۔‘‘
بہرحال یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اس طرح کے فوجی ساز و سامان کی فراہمی سے اہم لاجسٹک چیلنج بھی جڑے ہیں۔ یوکرین نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس کے پائلٹوں کو مغربی لڑاکا طیاروں جیسے F-16 میں بیٹھ کر لڑائی کی تربیت حاصل کرنے میں تقریباً چھ ماہ لگیں گے۔
لیٹے کا کہنا ہے کہ جوں جوں یوکرینی جنگ آگے بڑھ رہی ہے، انہوں نے اس بارے میں بحث کا رخ تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''جنگ کے آغاز کے بعد سے ہم نے یورپ میں دو کیمپ دیکھے ہیں۔ آپ کے پاس ایسے ممالک کا ایک کیمپ ہے جو واقعی یوکرینی جنگ جیتنا چاہتا ہے، اور جنگ جیتنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو روس کو شکست دینا ہو گی۔ پھر ایک اور کیمپ بھی ہے۔ وہ ممالک جو امن چاہتے ہیں اور کسی نہ کسی تصفیے سے کافی خوش ہوں گے۔‘‘
تاہم لیٹے کے بقول، ''ابھی وہ کیمپ جو جنگ جیتنا چاہتا ہے، جو واقعی روس کو پیچھے دھکیلنا چاہتا ہے، زیادہ بااثر ہے۔‘‘
ش ر / م م (ایلا جوائنر، برسلز)