جنگ بندی کے حوالے سے نئے مذاکرات اور غزہ شہر میں شدید لڑائی
9 جولائی 2024غزہ کی جنگ دسویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے قطر میں ایک مرتبہ پھر مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔ اس بات چیت کے بارے میں جاننے والے ایک ذریعے نے بتایا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا بدھ کو دوحہ جا رہے ہیں اور وہ قطری وزیر اعظم سے بھی ملاقات کریں گے۔
کئی مہینوں میں اب تک کی شدید لڑائی
دریں اثنا اس موقع پر اسرائیلی فورسز نے غزہ شہر میں زمینی فورسز، ٹینکوں اور جنگی طیاروں سے نئے حملوں کا آغاز کر دیا ہے۔ حماس نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پر الزام لگایا ہے کہ وہ جان بوجھ کر غزہ شہر اور جنوبی رفح میں لڑائی تیز کر رہے ہیں تاکہ جنگ بندی کے ممکنہ معاہدے کو ناکام بنایا جائے۔
عسکریت پسند گروپ حماس کے قطر میں مقیم سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ انہوں نے ثالثوں کے ساتھ ''فوری رابطہ‘‘ کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ نئی کارروائیوں کے ''تباہ کن نتائج مذاکرات کے عمل کو دوبارہ صفر تک پہنچا سکتے‘‘ ہیں۔
حماس کے مسلح ونگ عزالدین القسام بریگیڈز نے غزہ شہر کی تازہ ترین لڑائی کو ''گزشتہ مہینوں میں سب سے شدید‘‘ قرار دیا ہے، جس میں عسکریت پسند راکٹوں، مارٹر گولوں اور دھماکہ خیز مواد کا استعمال کر رہے ہیں۔
اسرائیلی فورسز نے غزہ شہر کے مشرقی حصے الشجاعیہ میں تقریباً دو ہفتوں کی لڑائی کے بعد پیر کے روز سے شہر کے مشرق، مغرب اور جنوب میں لڑائی اور بمباری کو تیز کر دیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ غزہ شہر میں حماس اور اسلامی جہاد کے خلاف ''انسداد دہشت گردی کی کارروائی‘‘ کر رہی ہے۔ اسرائیل نے چھ ماہ قبل بھی شمالی غزہ میں حماس کے ''فوجی فریم ورک‘‘ کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
ہزاروں فلسطینی نقل مکانی پر مجبور
اقوام متحدہ نے کہا کہ 27 جون سے اسرائیل کی جانب سے غزہ شہر سے انخلا کے تین الگ الگ حکم نامے جاری کیے جانے سے دسیوں ہزار شہری متاثر ہوئے ہیں۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق آج پھر ہزاروں افراد کو دوبارہ بم زدہ عمارتوں سے گزرتے اور دھول سے اٹی ہوئی سڑکوں پر مارچ کرتے دیکھا گیا، جہاں مائیں بچوں کو اور سینکڑوں خاندان اپنا بچا کچا سامان گدھا گاڑیوں پر لاد کر لے جا رہے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ وہ عام شہریوں کے لیے نئے احکامات کے حوالے سے ''خوف زدہ‘‘ ہے، ''بہت سے لوگوں کو متعدد بار زبردستی بے گھر کر دیا گیا ہے تاکہ وہ ان علاقوں میں منتقل ہو جائیں، جہاں اسرائیلی فوجی کارروائیاں جاری ہیں اور جہاں شہری ہلاک اور زخمی ہو رہے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مزید کہا ہے کہ غزہ کے باشندوں کو پیر کے روز وسطی غزہ سے نکلنے کے لیے کہا گیا تھا اور اب یہ بے گھر فلسطینی نئی لڑائی میں پھنس گئے ہیں کیونکہ اسرائیلی فوج نے ''غزہ شہر کے جنوب اور مغرب میں اپنے حملوں کو تیز کر دیا اور ان علاقوں کو بھی نشانہ بنایا ہے، جہاں انہوں نے لوگوں کو منتقل ہونے کی ہدایت کی تھی۔‘‘
سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ایک دہشت گردانہ حملے میں قریب بارہ سو اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل نے غزہ میں بڑی فضائی اور زمینی عسکری کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا۔ اسرائیلی فوج کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتوں اور غزہ میں شہری ڈھانچے کی بڑے پمانے پر تباہی کے پیش نظر اسرائیل کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔
غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ میں اب تک کم از کم 38,243 افراد ہلاک اور 87,000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی تھی جبکہ قریب 10 ہزار فلسطینی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ملبے تلے دبے فلسطینیوں کی تعداد بھی اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
حماس نے گزشتہ ہفتے اشارہ دیا تھا کہ وہ ''مکمل جنگ بندی پر اپنا اصرار ترک‘‘ کر دے گی، جس کی وجہ سے اسرائیل بار بار جنگ بندی کی پیش کش مسترد کر چکا ہے۔
دوحہ میں ہونے والے نئے مذاکرات کے بارے میں باخبر ایک فلسطینی اہلکار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ حماس کا وفد اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ بات چیت میں حصہ لے گا لیکن ابھی کئی ''اختلافی نکات‘‘ موجود ہیں۔ اس اہلکار کے مطابق اسرائیل نے طویل سزا کاٹنے والے کچھ فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا ہے اور یہ سوال ابھی جواب طلب ہے کہ اسرائیل مصر کے ساتھ غزہ کے جنوبی سرحدی علاقوں سے کب پیچھے ہٹے گا؟
ا ا/ا ب ا، م م (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)