جنگ، بھوک اور در بدری کے بعد اب ہیضہ بھی، یمنی شہری بے حال
9 مئی 2017گزشتہ چار برسوں سے جاری جنگ نے پہلے ہی سے غریب ترین ممالک میں شمار ہونے والے عرب ملک یمن میں زندگی اور بھی مشکل بنا دی ہے۔ اس جنگ ہی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ یمن کے بہت سے شہروں میں کوڑا کرکٹ ہٹانے کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ ہیضے کے بڑھتے ہوئے کیسز اسی ہر طرف پھیلی گندگی کا نتیجہ ہیں۔ اب تک ہیضے کے باعث ایک سو آٹھ انسان موت کے منہ میں جا چکے ہیں جبکہ 23 ہزار ممکنہ طور پر اس مرض سے متاثر ہو چکے ہیں۔
وبا پھوٹ پڑنے کے بڑھتے خدشات
امدادی تنظیم ’ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘ کے ایک ترجمان غسان ابو شار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا: ’’ہمیں خدشہ ہے کہ یہ مرض بڑھتے بڑھتے ایک وبائی بیماری کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔‘‘ اُنہوں نے مزید بتایا کہ یمن میں شاذ ہی کوئی ہسپتال تباہی سے بچا ہے اور صحت عامہ کا نظام مکمل طور پر شکست و ریخت کا شکار ہو چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 2013ء میں جنگ شروع ہونے سے لے کر اب تک یمن میں تقریباً دَس ہزار انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔ تقریباً 7.5 ملین بچوں کو فوری طبی امداد درکار ہے۔ بائیس لاکھ بچوں کو ناکافی خوراک مل رہی ہے جبکہ تقریباً نصف ملین شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
’دنیا بھر میں قحط کا سب سے بڑا خطرہ‘
اقوام متحدہ کے مطابق مجموعی طور پر تقریباً سترہ ملین یمنی شہری بھوک سے دوچار ہیں اور وہ صرف امدادی اداروں کی طرف سے فوری اور بڑے پیمانے پر فراہم کی جانے والی اَشیائے خوراک ہی کی مدد سے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہو پا رہے ہیں۔ چند روز قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹیریش نے کہا تھا کہ یمن ’دنیا بھر میں قحط کے سب سے بڑے خطرے‘ سے دوچار ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین یُو این ایچ سی آر کی ترجمان شابیہ مانتو کے مطابق یمنی تنازعے کا کوئی سیاسی حل دور دور تک نظر نہیں آ رہا: ’’لیکن یہ تناز عہ حل ہونا چاہیے۔ تبھی ہم مدد کر سکتے ہیں۔‘‘
سیاسی حل کے لیے ٹرمپ سے امیدیں
اس سیاسی حل کے لیے اب نظریں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف بھی اٹھ رہی ہیں، جو رواں مہینے کے اواخر میں سعودی عرب کا دورہ کرنے والے ہیں۔ مارچ میں واشنگٹن میں ٹرمپ اور سعودی نائب ولی عہد محمد بن سلمان کے مابین ایک ملاقات کے بعد سعودی شہزادے کے ایک مُشیر نے کہا تھا کہ یہ ملاقات سیاسی، فوجی اور سکیورٹی معاملات میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کر رہی تھی۔ اس مُشیر کے مطابق ’خطّے میں ایران کی توسیع پسندی‘ کے حوالے سے دونوں رہنماؤں کے خیالات ایک جیسے تھے۔
ماہرین کے خیال میں یمن میں درحقیقت خطّے کے دو اہم ممالک ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار ہیں۔ ریاض حکومت کے خیال میں شیعہ حوثی باغی یمن کے وسیع تر علاقوں پر اپنا قبضہ ایران ہی کی تائید و حمایت اور امداد سے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی اور سعودی سفارت کاروں کے ساتھ ساتھ یمنی حلقے بھی یہ توقع کر رہے ہیں کہ اگر ٹرمپ سعودی عرب کے دورے کے دوران سعودی قیادت کے سکیورٹی خدشات کو کسی حد تک کم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کے اثرات یقینی طور پر یمن میں جاری جنگ پر بھی پڑیں گے۔