1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنگ، بھوک اور در بدری کے بعد اب ہیضہ بھی، یمنی شہری بے حال

علی کیفی Kersten Knipp
9 مئی 2017

جنگ، بھوک اور در بدری کے بعد اب یمن میں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس بیماری کو صرف جھڑپیں ختم کرتے ہوئے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2ceCw
Jemen Sanaa Ausbruch der Cholera
یمنی دارالحکومت صنعاء کے ایک ہسپتال کا منظر، ہیضے سے متاثرہ ایک بچی کو اُس کے لواحقین نے ہسپتال کے فرش پر لٹا رکھا ہےتصویر: Reuters/K. Abdullah

گزشتہ چار برسوں سے جاری جنگ نے پہلے ہی سے غریب ترین ممالک میں شمار ہونے والے عرب ملک یمن میں زندگی اور بھی مشکل بنا دی ہے۔ اس جنگ ہی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ یمن کے بہت سے شہروں میں کوڑا کرکٹ ہٹانے کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ ہیضے کے بڑھتے ہوئے کیسز اسی ہر طرف پھیلی گندگی کا نتیجہ ہیں۔ اب تک ہیضے کے باعث ایک سو آٹھ انسان موت کے منہ میں جا چکے ہیں جبکہ 23 ہزار ممکنہ طور پر اس مرض سے متاثر ہو چکے ہیں۔

وبا پھوٹ پڑنے کے بڑھتے خدشات

امدادی تنظیم ’ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘ کے ایک ترجمان غسان ابو شار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا: ’’ہمیں خدشہ ہے کہ یہ مرض بڑھتے بڑھتے ایک وبائی بیماری کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔‘‘ اُنہوں نے مزید بتایا کہ یمن میں شاذ ہی کوئی ہسپتال تباہی سے بچا ہے اور صحت عامہ کا نظام مکمل طور پر شکست و ریخت کا شکار ہو چکا ہے۔

Jemen Sanaa Ausbruch der Cholera
تمام یمنی شہروں میں کوڑا کرکٹ ہٹانے کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے، ہیضے کے بڑھتے ہوئے کیسز اسی ہر طرف پھیلی گندگی کا نتیجہ ہیںتصویر: Reuters/K. Abdullah

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 2013ء میں جنگ شروع ہونے سے لے کر اب تک یمن میں تقریباً دَس ہزار انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔ تقریباً 7.5 ملین بچوں کو فوری طبی امداد درکار ہے۔ بائیس لاکھ بچوں کو ناکافی خوراک مل رہی ہے جبکہ تقریباً نصف ملین شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

’دنیا بھر میں قحط کا سب سے بڑا خطرہ‘

اقوام متحدہ کے مطابق مجموعی طور پر تقریباً سترہ ملین یمنی شہری بھوک سے دوچار ہیں اور وہ صرف امدادی اداروں کی طرف سے فوری اور بڑے پیمانے پر فراہم کی جانے والی اَشیائے خوراک ہی کی مدد سے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہو پا رہے ہیں۔ چند روز قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹیریش نے کہا تھا کہ یمن ’دنیا بھر میں قحط کے سب سے بڑے خطرے‘ سے دوچار ہوتا نظر آ رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین یُو این ایچ سی آر کی ترجمان شابیہ مانتو کے مطابق یمنی تنازعے کا کوئی سیاسی حل دور دور تک نظر نہیں آ رہا: ’’لیکن یہ تناز عہ حل ہونا چاہیے۔ تبھی ہم مدد کر سکتے ہیں۔‘‘

Donald Trump Mohammed bin Salman
واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی نائب ولی عہد محمد بن سلمان کی ملاقات میں خطے میں ایران کی توسیع پسندی کے حوالے سے یکساں موقف کا اظہار کیا گیا تصویر: picture alliance/dpa/M.Wilson

سیاسی حل کے لیے ٹرمپ سے امیدیں

اس سیاسی حل کے لیے اب نظریں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف بھی اٹھ رہی ہیں، جو رواں مہینے کے اواخر میں سعودی عرب کا دورہ کرنے والے ہیں۔ مارچ میں واشنگٹن میں ٹرمپ اور سعودی نائب ولی عہد محمد بن سلمان کے مابین ایک ملاقات کے بعد سعودی شہزادے کے ایک مُشیر نے کہا تھا کہ یہ ملاقات سیاسی، فوجی اور سکیورٹی معاملات میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کر رہی تھی۔ اس مُشیر کے مطابق ’خطّے میں ایران کی توسیع پسندی‘ کے حوالے سے دونوں رہنماؤں کے خیالات ایک جیسے تھے۔

ماہرین کے خیال میں یمن میں درحقیقت خطّے کے دو اہم ممالک ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار ہیں۔ ریاض حکومت کے خیال میں شیعہ حوثی باغی یمن کے وسیع تر علاقوں پر اپنا قبضہ ایران ہی کی تائید و حمایت اور امداد سے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی اور سعودی سفارت کاروں کے ساتھ ساتھ یمنی حلقے بھی یہ توقع کر رہے ہیں کہ اگر ٹرمپ سعودی عرب کے دورے کے دوران سعودی قیادت کے سکیورٹی خدشات کو کسی حد تک کم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کے اثرات یقینی طور پر یمن میں جاری جنگ پر بھی پڑیں گے۔