جنگ سے متاثر یمن کو اب خُناق کی وبا کا سامنا
14 دسمبر 2017اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کے مطابق خُناق سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا خطرہ بچوں کو ہے۔ اب تک سامنے آنے والے 280 مشتبہ خُناق کے کیسز میں سب سے زیادہ دیکھی گئی۔ اس بیماری میں اب تک 33 اموات بھی رپورٹ کی گئی ہیں۔ اس بیماری سے بچاؤ کے لیے انتہائی کم افراد کو مدافعتی ادویات تک رسائی حاصل ہے۔
یمن میں پانچ ہزار سے زائد ہلاکتیں، زیادہ ترعرب بمباری کا نتیجہ
خانہ جنگی کا شکار یمن، ہیضے کی بھی آماج گاہ
یمن کو دنیا میں ہیضے کی بدترین وبا کا سامنا، تیرہ سو ہلاکتیں
جنگ، بھوک اور در بدری کے بعد اب ہیضہ بھی، یمنی شہری بے حال
ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہلاک اور متاثر ہونے والے بچوں میں اُن کی تعداد زیادہ ہے جن کو اس متعدی اور جان لیوا بیماری کے پھیلتے وقت مدافعتی ویکسین فراہم نہیں کی جا سکی تھی۔
ڈبلیو ایچ او کے ترجمان نے خبر رساں ایجنسی، تھامس رائٹرز فاونڈیشن کو ایک ای میل کے ذریعے بتایا ، " اگر روک تھام نہ کی گئی تو خُناق کی مہلک وبا، شدید المناک صورتحال پیدا کر دے گی جس کا سب سے زیادہ شکار بچے ہوں گے۔"
ڈبلیو ایچ او کے علاوہ بین الاقوامی طبی امدادی تنظیم ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے معالجین اور منتظمین کا بھی کہنا ہے کہ خناق کی وبا کا بڑے پیمانے پر پھوٹنا اب ناگزیر ہو چکا ہے ۔ تنظیم کے مطابق طبی سہولیات کا فقدان، علاج معالجے کی عدم رسائی، متعدی امراض سے بچاو کی ویکسین کا دستیاب نہ ہونا، انتہائی بڑی تعداد میں لوگوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ بار بار ہجرت کرنا اور اس انفیکشن کے شکار لوگوں کا دوسرے افراد سے میل جول نے اس مہلک بیماری کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق خُناق کسی بھی متاثرہ شخص سے نزلے، چھینک، کھانسی یہاں تک کہ بات چیت کرنے سے بھی پھیل سکتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق یمن اس وقت ہیضے کی وبا سے بھی دوچار ہے، اس بیماری سے ایک ملین سے زائد افراد متاثر ہیں۔ ہیضے کی وبا سے اب تک دو ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔
ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق خُناق، ہیضے کی وبا سے زیادہ مہلک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اس بیماری میں مبتلا ہر پانچ میں سے دو افراد کی موت ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ مشرقی وسطیٰ کے اس غریب عرب ملک یمن میں اب تک دس ہزار سے زائد افراد خانہ جنگی کے باعث لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ دو ملین سے زائد افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔