جولیان اسانج کی امریکہ حوالگی کا کیس، آگے کیا ہو سکتا ہے؟
19 فروری 2024کل، یعنی منگل کو وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج کو برطانیہ کی بیلمارش جیل میں قید ہوئے 1,776 دن پورے ہو جائیں گے۔ اور اسی دن ان کو امریکہ کے حوالے کرنے سے متعلق مقدے کی آخری اور فیصلہ کن سماعت بھی ہو سکتی ہے۔
52 سالہ صحافی اسانج کو افغانستان اور عراق میں امریکی فوجی کارروائیوں سے متعلق خفیہ معلومات افشا کرنے کے الزام میں قانونی کارروائی کا سامنا ہے۔
اب جب کل اس کیس کے حوالے سے اہم پیش رفت متوقع ہے، دنیا بھر میں متعدد حلقوں کی جانب سے جولیان اسانج کی رہائی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ ساتھ ہی امریکہ کی ان کے خلاف قانونی کارروائی پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔
اگر کل برطانوی عدالت کے فیصلے کے بعد جولیان اسانج کو امریکی حکام کے حوالے کیے جانے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے تو انہیں مزید 175 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑ سکتے ہیں۔
اس مقدمے کی سماعت برطانیہ کے ایک ہائی کورٹ میں کی جا رہی ہے، جو کل بنیادی طور پر اس بات کا جائزہ لے گی کہ آیا جولیان اسانج اپنی امریکہ کو حوالگی روکنے کے لیے تمام قانونی آپشنز استعمال کر نے کے بعد بھی ناکام رہے ہیں یا وہ اپنی قانونی جنگ برطانیہ میں ہی جاری رکھ سکتے ہیں۔
عدالت کی طرف سے ان کے امریکی حکام کو حوالگی کے حق میں فیصلہ سنانے کی صورت میں جولین اسانج کو جاسوسی سے متعلق سو سال پرانے امریکی قانون کے تحت سزا سنائی جا سکتی ہے۔ یہ قانون پہلی عالمی جنگ کے دوران غداروں کو سزا دینے کے مقصد سے بنایا گیا تھا اور اب تک اس کے تحت کسی صحافی کو سزا نہیں سنائی گئی ہے۔
جولیان اسانج پر لگا الزام
جولیان اسانج کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز افغانستان اور عراق میں امریکی فوجی آپریشنز سے متعلق کچھ دستاویزات کی ان کے پلیٹ فارم وکی لیکس پر اشاعت کے بعد ہوا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے چیلسی میننگ نامی سابق امریکی فوجی اہلکار کی مدد سے یہ خفیہ معلومات چرا کر شائع کیں۔
اس حوالے سے سن 2010 میں تب کے نائب امریکی صدر اور موجودہ صدر جو بائیڈن نے جولیان اسانج کو "ہائی ٹیک دہشت گرد" قرار دیا تھا۔
اس کیس سے متعلق امریکی حکام کا یہ موقف بھی رہا ہے کہ ان کے اور چیلسی میننگ کے خفیہ معلومات افشا کرنے کے عمل سے امریکہ کے لیے کام کرنے والی مخبروں کی زندگیاں خطرے میں پڑیں۔ تاہم امریکی حکومت اب تک اس بات کا کوئی ثبوت نہیں دے پائی ہے کہ ان دستاویزات کی اشاعت سے کسی کو کسی طرح کا نقصان پہنچا ہے۔
امریکی حکومت نے جولیان اسانج پر ہیکر ہونے کا الزام بھی عائد کیا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاق و سباق کے بغیر معلومات شائع کرتے ہیں۔
تاہم 2010ء میں شائع ہونے والے دستاویزات میں موجود تفصیلات میں سے کچھ بھی پنہاں رکھے بغیر ان کی اشاعت کے لیے بھی جولیان اسانج کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ان کی اشاعت کے لیے وکی لیکس نے معروف میڈیا اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا تھا، جس کے بعد اس معلومات تک رسائی کے لیے ایک پاس ورڈ مختص کیا گیا تھا، جو ایک صحافی نے اپنی کتاب میں شائع کیا تھا۔
میٹیاس وون ہائن (م ا/ ک م)