جولیاں: پاکستان میں بدھ مت کی قدیم ترین یونیورسٹی
یونیسکو کی طرف سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دی گئی جولیاں کی قدیم بدھ خانقاہ اور یونیورسٹی کی تاریخی باقیات پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں محفوظ ہیں۔ جولیاں صوبہ پنجاب میں ٹیکسلا کے بہت ہی قریب واقع ہے۔
گندھارا کی تہذیب
راولپنڈی کے قریب پوٹھوہار کے پہاڑی سلسلے میں ٹیکسلا اور صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور کے درمیان ایک نہر کے پاس لیکن ٹیکسلا کی وادی کے مقابلے میں تین سو فٹ کی بلندی پر واقع جولیاں میں بدھ مت کی قدیم ترین درس گاہ کی تاریخی باقیات گندھارا کی اس تہذیب کے بیش قیمت آثار ہیں، جس کا عرصہ سن پندرہ سو قبل از مسیح سے لے کر پانچویں صدی بعد از مسیح تک پھیلا ہوا تھا۔
عالمی ثقافتی ورثہ
پاکستان میں مختلف تہذیبوں اور ادوار کے متعدد مقامات کو یونیسکو نے اپنی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ انہی میں ٹیکسلا بھی شامل ہے، جسے کسی ایک مقام کے طور پر نہیں بلکہ ایک وسیع و عریض کمپلیکس کے طور پر ورلڈ ہیریٹیج سینٹر نے انسانیت کے عالمگیر ثقافتی ورثے میں سن انیس سو اسی میں شامل کیا تھا۔ اس حوالے سے جولیاں کی بدھ خانقاہی درس گاہ ٹیکسلا کمپلیکس ہی کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔
بھکشو طلبہ کے کمرے
بدھ مت کی دنیا کی اس قدیم ترین خانقاہ اور یونیورسٹی کی عمارت کا ایک بڑا حصہ اس طرح کے پتھر کے بڑے بڑے ٹکڑوں اور مٹی سے بنائے گئے درجنوں ایسے چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل ہے، جن میں آج سے قریب سولہ سترہ صدیاں قبل وہاں مذہب، فلسفے اور روحانیت کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ رہا کرتے تھے۔ زمین سے کچھ اونچے بنائے گئے ان رہائشی کمروں میں سے اب کسی کی بھی چھت باقی نہیں لیکن دیواریں ابھی تک محفوظ ہیں۔
خانقاہ کا مرکزی استوپ
جولیاں کی خانقاہ میں درس گاہ کے طلبہ کے رہائشی کمروں اور ان کے نہانے کے لیے بنائے گئے وسطی تالاب سے کچھ دور اس یونیورسٹی کا ایک مرکزی استوپ یا بدھ اسٹُوپا تھا، جس کے ارد گرد بدھ بھکشو اور طلبہ عبادت کیا کرتے تھے۔ گزشتہ قریب ڈیڑھ دو ہزار سال کے دوران اس مرکزی استوپ کو تو بہت زیادہ نقصان پہنچا لیکن اس کے ارد گرد بنائے گئے اکیس چھوٹے چھوٹے استوپ آج بھی کافی بہتر حالت میں ہیں۔
اکیس ضمنی استوپ
مرکزی استوپ کے ارد گرد آج بھی اکیس ایسے ضمنی استوپوں کی باقیات موجود ہیں، جو مرکزی استوپ کے بعد وہاں بنائے گئے تھے۔ محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے ایک چھت کے ذریعے موسمی اثرات سے محفوظ کیے جانے کے بعد جولیاں کی بدھ خانقاہ کا یہ حصہ کچے فرش پر بنائے گئے ایسے استوپوں پر مشتمل ہے، جن پر مٹی اور گارے سے بنائی گئی مہاتما بدھ کی بہت سی چھوٹی بڑی شبیہات اور مجسمے آج بھی احترام و تقدیس کی عکاسی کرتے ہیں۔
مٹی اور پتھروں سے دیرپا تعمیر
یہ تصویر دکھاتی ہے کہ قریب دو ہزار سال پہلے بھی وہاں کے بدھ عقیدت مندوں نے کس طرح صرف پتھروں اور مٹی کا استعمال کرتے ہوئے یہ استوپ یوں تعمیر کیے کہ کئی تباہ کن زلزلوں اور صدیوں کی شکست و ریخت کے بعد وہ آج بھی متاثر کن حد تک اچھی حالت میں ہیں۔ پتھروں کے چوکور ڈھیر پر مٹی کے لیپ کے بعد ہاتھ سے بنائی گئی مہاتما بدھ کی شبیہات اور مجسمے اس روحانی سکون اور ذہنی توجہ کا نتیجہ ہیں، جو بدھ مت کا خاصا ہیں۔
طواف کے لیے راہداری
مرکزی استوپ کے ار گرد بنائے گئے درجنوں ضمنی استوپوں کو اس طرح تعمیر کیا گیا کہ تب وہاں سے گزرنے والے بھکشو ان استوپوں کے درمیان میں بن جانے والی تنگ راہداریوں سے گزرتے ہوئے مرکزی استوپ کا طواف کر سکتے تھے۔ ان راہداریوں میں جگہ جگہ نظر آنے والے مہاتما بدھ کے مجسموں میں سے اب بہت ہی کم اپنی مکمل حالت میں ہیں۔
بالائی منزل کو جانے والی سیڑھیاں
ایک خاص طرز تعمیر کے ساتھ اور بڑے متناسب انداز میں دوسری تیسری صدی بعد از مسیح میں تعمیر کی گئی یہ سیڑھیاں جولیاں کی خانقاہ اور یونیورسٹی کی اس بالائی منزل تک جاتی ہیں جہاں دائیں بائیں دونوں طرف عبادت کے لیے برآمدے موجود ہیں۔ خانقاہ کے تالاب میں نہا کر اور عبادت کے لیے بڑی تعظیم کے ساتھ قطار در قطار چلنے والے بدھ طلبہ اور بھکشو صبح شام انہی سیڑھیوں سے گزرا کرتے تھے۔
’مہاتما بدھ کے دوست‘ کا عطیہ
خانقاہ میں مہاتما بدھ کا ایک ایسا خاص مجسمہ بھی ہے، جس میں انہیں عبادت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اسی لیے اس مجسمے کو ’محو عبادت مہاتما بدھ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس مجسمے کے نیچے لکھی گئی تحریر اس بدھ عقیدت مند کا نام ہے، جس نے یہ مجسمہ اس دور میں اس خانقاہ کو تحفے میں دیا تھا۔ یہ نام ’بدھا مترا دھرم آنند‘ ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس دور میں تحریری زبان بھی استعمال کی جاتی تھی۔
مکمل حالت میں مہاتما بدھ کے کئی مجسمے
اس تصویر میں ایک سے زائد تعمیراتی سطحوں والا ایک ایسا استوپ نظر آ رہا ہے، جس کی بیرونی دیوار پر بنے عبادت کرتے ہوئے مہاتما بدھ کے متعدد مجسمے اپنی مکمل اور اصلی حالت میں موجود ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والے پینتالیس سالہ رفاقت بیگ ایک سائٹ اٹینڈنٹ ہیں، جو گزشتہ اٹھائیس برسوں سے وہاں سرکاری ملازم کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں اور سیاحوں کے لیے گائیڈ کا کام بھی کرتے ہیں۔
طلبہ کا اسمبلی ہال
یہ جگہ طلبہ کے جمع ہونے کی جگہ تھی، جہاں ہر روز طلبہ تعلیم کے لیے اکٹھے ہوتے تھے۔ یہ اوپن ایئر برآمدہ کافی اچھی حالت میں ہے لیکن اگر وہاں لگائے گئے محکمہ آثار قدیمہ کے ٹوٹے ہوئے معلوماتی بورڈ کو دیکھا جائے تو علامتی طور پر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں موجود یونیسکو کے تسلیم کردہ اس عالمی ثقافتی ورثے کا دھیان شاید اس سے زیادہ اچھی طرح رکھا جا سکتا تھا جیسا کہ اب تک رکھا جا رہا ہے۔
نکاسی آب کا نظام
قریب دو ہزار سال قبل یہ جگہ اس خانقاہ میں رہنے والے بدھ عقیدت مندوں کے زیر استعمال آنے والے کھانا پکانے اور کھانے کے برتنوں کو دھونے کی جگہ تھی۔ اس سے متصل ایک باورچی خانہ تھا، جس کے ساتھ ہی طعام خانے کے مہتمم کے رہنے کا کمرہ ہوتا تھا۔
گندم پیسنے کی چکی
وہ پتھریلی چکی نظر آ رہی ہے، جسے استعال کرتے ہوئے خانقاہ کے رہائشیوں کے لیے گندم اور دیگر اجناس کو پیس کر روٹی کے لیے آٹا بنایا جاتا تھا۔ جولیاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جگہ درویشوں کے رہنے کی جگہ تھی۔ دستاویزی طور پر جولیاں کو اس کا موجودہ نام برطانوی نوآبادیاتی دور میں دیا گیا تھا، جب اس علاقے میں آثار قدیمہ کے انگریز ماہرین نے کھدائی کی تھی۔
مہاتما بدھ بطور مسیحا
یہ تصویر جولیاں کی عالمی ثقافتی میراث میں شامل تاریخی باقیات میں سے اہم ترین تاریخی نمونہ ہے۔ یہ مجمسہ ’شفا دینے والے مہاتما بدھ‘ یا Healing Buddha کا مجسمہ ہے، جو دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہاں آنے والے عقیدت مند اور مقامی طلبہ اس مجسمے کے ناف کے حصے والی جگہ پر بنے سوراخ میں اپنی دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی ڈال کر اپنے بیمار عزیز و اقارب کے لیے صحت کی دعا مانگا کرتے تھے۔