جوہری توانائی ترک کرنے کا فیصلہ مثال بن سکتا ہے، میرکل
31 مئی 2011انگیلا میرکل نے کہا کہ رواں برس مارچ میں جاپان کے فوکو شیما جوہری پاور پلانٹ کے حادثے کے تناظر میں جرمنی نے توانائی کی پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا، جس سے کاروبار اور ماحولیاتی تحفظ کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
انہوں نے برلن میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا: ’ہمیں یقین ہے کہ قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے نئے دَور میں ہم ایک ملک کی حیثیت سے مثال ہو سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جرمنی قابل تجدید توانائی اختیار کرنے والا پہلا بڑا صنعتی ملک بن سکتا ہے۔‘
جرمن چانسلر نے کہا کہ اس توانائی کو پوری طرح استعمال کرنے سے برآمدات، ترقیاتی، ٹیکنالوجی اور ملازمتوں کے بھی سب مواقع ملیں گے۔
میرکل کا کہنا ہے: ’ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل کی بجلی محفوظ، قابل بھروسہ اور گنجائش میں ہو۔‘
جرمنی کی جانب سے جوہری توانائی ترک کرنے کا فیصلہ پیر کی صبح رات بھر جاری رہنے والے اجلاس کے بعد سامنے آیا۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 2021ء تک زیادہ تر ایٹمی بجلی گھر بند کر دیے جائیں گے جبکہ تین جوہری پاور پلانٹس کھلے رہیں گے، جنہیں بجلی کی قلت کی صورت میں استعمال کیا جائے گا۔ تاہم یہ تینوں ایٹمی بجلی گھر بھی 2022ء میں بند کر دیے جائیں گے۔
قبل ازیں 28 مئی کو کلیسائی نمائندوں، ماہرین تعلیم اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایک 17 رُکنی پینل نے چانسلر انگیلا میرکل کومشورہ دیا تھا کہ جرمنی اپنے آٹھ ایٹمی بجلی گھر ابھی بند کر دے۔ اس پینل کا کہنا تھا کہ باقی نو ایٹمی پلانٹس میں بجلی پیدا کرنے کا کام آئندہ دس برسوں میں بتدریج ختم کر دیا جائے۔
اُدھر فرانس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس حوالے سے جرمنی کی پیروی نہیں کرے گا۔ فرانس جوہری توانائی کی پیداوار کے لحاظ سے یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ تاہم پیرس حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ جرمنی کے فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
فرانس کے وزیر خارجہ Alain Juppe کا کہنا ہے: ’ہم سمجھتے ہیں کہ کم از کم کچھ دہائیوں تک جوہری توانائی کے بغیر ہمارا کام نہیں چلے گا۔‘
رپورٹ: ندیم گِل/خبر رساں ادارے
ادارت: امتیاز احمد