جینڈر ایکس: پاکستانی ٹرانس جینڈرز کی زندگی پر بنی دستاویزی فلم
جرمن فوٹوگرافر اور فلم ساز مانولو ٹائے نے پاکستان میں بسنے والے اقلیتی طبقے خواجہ سراؤں یا ٹرانس جینڈر افراد کی زندگی پر خصوصی دستاویزی فلم بنائی ہے۔ Gender X کے چند اہم کرداروں کی کہانی جانیے اس خصوصی پکچر گیلری میں۔
سڑکوں پر بھیک مانگتے خواجہ سرا
پاکستان کے بڑے شہر لاہور میں ایک نوجوان ٹرانس جینڈر خاتون ٹریفک کے رش کے اوقات کے دوران بھیک مانگ رہی ہے۔ ہر شب کی طرح، آج بھی اس کے گُرو نے اپنی ہجڑا برادری کے لیے رقم اکٹھا کرنے کے لیے اسے بھیجا تھا، جہاں اس کی رہائش ہے۔
گداگری، جسم فروشی اور رقص
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک ثقافتی تقریب کے دوران ایک بزرگ ہجڑا روایتی لباس میں رقص کر رہا ہے۔ گداگری اور جسم فروشی کے علاوہ رقص خواجہ سراؤں کی آمدنی کے تین اہم ذرائع میں سے ایک ہے۔
پناہ کی تلاش میں پاکستان سے ہالینڈ کا سفر
اسلام آباد میں فیشن شوٹ کے دوران ایک پشتون انسانی حقوق کی کارکن عنایہ۔ 2016 میں امریکی دستاویزی فلم ’بلیک آؤٹ‘ میں منظر عام پر آئیں۔ پاکستان میں عنایہ ٹرانس جینڈر تحریک کی چند نامور شخصیات میں سے ایک ہیں۔ یہ تصویر بنوانے کے دو ماہ بعد اسے پاکستان سے فرار ہونا پڑا کیونکہ اس کے اہل خانہ نے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اب عنایہ ہالینڈ میں رہتی ہے۔ اس کی کہانی دستاویزی فلم Gender X کا ایک حصہ ہے۔
ٹرانس جینڈر خواتین کی روز مرہ کی زندگی
ٹرانس جینڈر خواتین لوڈوکھیل رہی ہیں۔ بہت ساری ٹرانس جینڈر خواتین کو کم عمری میں ہی اپنے اہل خانہ سے الگ کر کے نام نہاد ’گرو‘ یعنی خواجہ سراؤں کی برادری میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ گرو کے پاس انہیں نہ صرف پناہ ملتی ہے بلکہ ایک نیا خاندان بھی مل جاتا ہے۔
پاکستان کی پہلی ’ٹرانس ماڈل‘
کامی سڈ کراچی میں اپنے اپارٹمنٹ میں ہے۔ انگریزی اخبار گارڈین نے کامی کو پاکستان کی پہلی ’ٹرانس ماڈل‘ قرار دیا۔ پاکستانی معاشرے میں جس حقارت کی نظر سے ٹرانسجینڈر لوگوں کو دیکھا جاتا ہے، کامی سڈ ان دقیانوسی خیالات کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔
کاسٹریشن یعنی ’آختہ کاری‘
کراچی میں شہزادی اپنے کمرے میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن کی حیثیت سے اپنی نئی ملازمت کی تیاری کر رہی ہے۔ دو سال قبل ، کاسٹریشن یعنی ’آختہ کاری‘ کے بعد اس کی صحت بہت زیادہ خراب ہوگئی۔ بعد ازاں شہزادی جسم فروشی کا کام چھوڑنے پر مجبور ہوگئی۔
تیسری جنس کے ساتھ پاکستانی پاسپورٹ
پشاور میں انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ اپنے گھر میں بستر پر بیٹھی ہیں۔ فرزانہ تیسری جنس کے ساتھ پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرنے والی پہلی شخص ہے۔ انہوں نے خود کو تیسری جنس کے ساتھ رجسٹرڈ کروایا۔ فرزانہ پر قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش کے ایک دن بعد مانولو نے یہ تصویر کھینچی تھی۔ تذلیل کی نشانی کے طور پر، ان کے حملہ آوروں نے ان کے لمبے لمبے بال کاٹ دیے۔
’’اس ہی طرح پیدا ہوئی‘‘
’بریسٹ ایمپلانٹیشن‘ یعنی نئی چھاتی حاصل کرنے کے لیے کامیاب سرجری کے 8 ہفتوں بعد، رومیسا کراچی میں اپنے اپارٹمنٹ میں بیٹھی ہیں۔ رومیسا شہر کے ایک پوش علاقے میں اپنے دوست کے ساتھ رہتی ہے اس کے باوجود وہ خود کو حجڑا برادری کا حصہ سمجھتی ہے اور اپنے حقوق کے لیے لڑتی ہے۔ بائیں بازو پر نقش ٹیٹو میں "Born this way" یعنی ’’اس ہی طرح پیدا ہوئی‘‘ لکھا ہے۔
ٹرانس جینڈر افراد اور سوشل میڈیا
کراچی کے ایک نواحی علاقے میں دو خواجہ سراہ افراد اپنا فیس بک پر اسٹیٹس اپ ڈیٹ کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا نے پاکستانی معاشرے میں ٹرانس جینڈر برادری کو آواز دی ہے اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کا یہ ان کا پسندیدہ پلیٹ فارم بن چکا ہے۔
ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے لیے لڑائی
ٹرانس جینڈر پروٹیکشن بل 2018 ءکے بارے میں کراچی کے قریب خواجہ سراہ کمیونٹی اجلاس، کچھ ہی دیر بعد پاکستانی سینیٹ نے اس بل کی توثیق کردی۔
مانولو ٹائے کی خصوصی ڈاکیومنٹری Gender X
جرمن فوٹوگرافر مانولو ٹائے کی خصوصی ڈاکیومنٹری ’جینڈر ایکس‘ اقوام متحدہ کے تعاون سے بنائی گئی ہے۔ یہ فلم یورپ کے متعدد فلم فیسٹیول میں بھی نمائش کے لیے پیش کی جاچکی ہے۔ کراچی کے گوئتھے انسٹیٹیوٹ میں 5 دسمبر کو ہیومن رائٹس ریل فیسٹیول میں دکھائی جائے گی جبکہ 9 دسمبر کو اسلام آباد میں سنیماٹوگرافی کے ذریعے انسانی حقوق کے فلم فیسٹیول کی زینت بنے گی۔