جی سیون سمٹ: تین سوال، تین جواب
26 مئی 2017اطالوی جزیرے سِسلی کے سیاحتی مقام تاؤرمینا میں ہونے والے جی سیون سربراہی اجلاس میں امریکا کے علاوہ کینیڈا، فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور جاپان کے رہنما بھی اِس اجلاس میں شریک ہیں۔ اس سربراہی اجلاس کے حوالے سے تین سوال، تین جواب۔
گروپ سیون کے اس سربراہی اجلاس میں کونسے معاملات زیر بحث ہیں؟
جی سیون کا یہ سربراہی اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب مانچسٹر خودکش حملے کو چند ہی روز گزرے ہیں۔ اس دہشت گردانہ حملے میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تو امکان یہی ہے کہ سب سے زیادہ توجہ دہشت گردی ہی کے موضوع پر رہے گی۔ اس اجلاس کے آغاز سے قبل یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹُسک سے ملاقات میں امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کو دہشت گردی اور داعش کے خلاف سخت بلکہ ظالمانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ٹُسک کا کہنا تھا کہ وہ بھی صدر ٹرمپ کے اس خیال کی تائید کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے علاوہ اس اجلاس میں خاص طور پر گلوبل وارمنگ اور عالمی اقتصادی معاملات پر بھی بات ہو گی اور روس، شام، ایران اور شمالی کوریا کے معاملات بھی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز برسلز میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں کیا پیشرفت سامنے آئی؟
ٹرمپ چونکہ اپنی انتخابی مہم کے دوران اور پھر عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد بھی نیٹو اتحاد کے بارے میں کئی ایسے بیانات دے چکے ہیں جس کی وجہ سے کئی شکوک وشبہات موجود تھے۔ ٹرمپ نے جمعرات کے روز اس اجلاس کے دوران اتحادی ممالک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اتحاد کے لیے درکار مالی تعاون میں ناکام رہے ہیں اور بہت سے ممالک کے ذمے گزشتہ کئی برسوں کا بھاری سرمایہ واجب الادا ہے۔ ٹرمپ کے مطابق اس اتحاد کا بوجھ امریکی ٹیکس دہندگان پر پڑ رہا ہے۔ یورپی حکام کا کہنا ہے کہ نیٹو کے رکن ممالک امریکی صدر کی جانب سے اس جارحانہ طرز تخاطب سے نالاں ہیں۔ تاہم وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی اس اجلاس میں شرکت نیٹو ممالک کے دفاع کے لیے امریکی عزم کا ثبوت ہے۔
جی سیون سمٹ سے قبل جرمنی کے بارے میں ٹرمپ کے الفاظ بھی موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ معاملہ کیا ہے؟
دراصل امریکی صدر ڈونلڈ نے جعمرات کو یورپی کمیشن کے سربراہ ژاں کلود یُنکر اور یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹُسک سے ملاقات میں مختلف معاملات پر بات چیت کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس دوران ٹرمپ نے جرمنی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جرمن بُرے، بہت بُرے ہیں کیونکہ وہ امریکا میں کئی ملین کاریں فروخت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ یہ خوفناک ہے اور وہ اس کو روکیں گے۔ ڈونلڈ ٹُسک نے آج میڈیا کو بتایا کہ ٹرمپ کا مقصد جرمن عوام یا لوگوں کو بُرا کہنا نہیں تھا بلکہ وہ امریکا کے لیے جرمنی کی برآمدات پر بات کر رہے تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس جرمن برآمدات درآمدات کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہی تھیں اور اس پر امریکی حکام کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔