جی ٹوئنٹی اجلاس، شام پر اختلافات برقرار
6 ستمبر 2013روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ کے نواح میں واقع لگژری پیٹرہوف پیلس میں جعمرات کی شب ایک عشائیے کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر میزبان ملک روس کے صدر پوٹن نے دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے سربراہان ریاست اور حکومت سے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ شامی تنازعے کے حل کے لیے کھل کر اپنی اپنی رائے دیں۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے اطالوی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس دوران شام پر امریکی حملے کی تجویز پر کوئی اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے ماسکو حکومت کی شدید مخالفت کے باوجود شامی صدر کے خلاف فوجی کارروائی پر زور دیا۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ اسد حکومت کی طرف سے کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال پر اسے سزا دینے کے لیے فوجی مداخلت ضروری ہے تاکہ وہ آئندہ ایسے مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے باز رہے۔ واضح رہے کہ شامی حکومت کا کہنا ہے کہ زہریلی گیسوں کا استعمال باغیوں نے کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شام کے لیے خصوصی مندوب لخضر براہیمی جی ٹوئنٹی کے دو روزہ اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔ ناقدین کے بقول براہیمی کی اس طرح سینٹ پیٹرز برگ روانگی کا مطلب ہے کہ اس اجلاس کے دوران شام کے پر امن حل کے لیے بھی مکالمت ہو گی۔ اسی اثناء ماسکو حکومت نے بھی کہہ دیا ہے کہ شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم پیر کے دن ماسکو کا دورہ کریں گے۔ یہ امر اہم ہے کہ ماسکو حکومت شامی صدر بشار الاسد کی ایک حامی تصور کی جاتی ہے، جو شام پر کسی بھی قسم کے حملے کے خلاف ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سینٹ پیٹرزبرگ سے موصولہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس عشائیے کے دوران روس کے اتحادی ممالک دمشق حکومت پر حملے کے حوالے سے اپنے مؤقف پر برقرار رہے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ شام پر زہریلی گیس کے استعمال کے حوالے سے لندن حکومت کو نئے شواہد ملے ہیں۔ اسی اثناء ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا ’بہانہ‘ بنا کر شام پر حملے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ انہوں ںے عہد کیا کہ تہران حکومت ’آخری وقت تک‘ دمشق کا ساتھ دے گی۔
چینی حکومت نے بھی کہا ہے کہ شام کے مسئلے کا حل صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ جی ٹوئنٹی اجلاس میں شریک چین کی نمائندگی کرنے والے ایک اعلیٰ سفارتکار چی گنگ نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ جنگ سے مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ماسکو اور تہران حکومتوں کی طرح انہوں نے بھی شام پر فوجی حملے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح صورتحال مزید بگڑ جائے گی۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی شام کے خلاف عسکری کارروائی میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ نہ دینے کا اعلان کر چکی ہیں۔ برطانیہ کی پارلیمان نے بھی اس حوالے سے واشنگٹن حکومت کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یورپی یونین کے صدر ہیرمن فان رومپوئے کا کہنا ہے کہ دمشق حکومت کی طرف سے مبینہ کیمیاوی حملہ انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے لیکن شامی بحران کے حل کے لیے فوجی کارروائی حل نہیں ہو سکتا۔