جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس، شریک ممالک اختلافات کا شکار
15 نومبر 2022انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں جاری جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس واضح طور پر تقسیم کا شکار نظر آ رہا ہے۔ یوکرین اور مغربی ممالک یہ چاہتے ہیں کہ اس اجلاس کے موقع پر زیادہ سے زیادہ ممالک یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کریں تاکہ جنگ کے خاتمے کے لیے صدر ولادیمیر پوٹن پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔
اس مقصد کے لیے یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے امریکہ سمیت جی ٹوئنٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ یوکرینی صدر نے ایک 10 نکاتی امن فارمولا پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس جنگ کو ''منصفانہ، اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر‘‘ ختم کیا جائے۔
یوکرین، یورپی یونین اور امریکہ ایک ایسا اعلامیہ چاہتے ہیں، جس میں روسی حملے کی مذمت کی جائے۔
روس کا موقف
دوسری جانب روس نے ایسے کسی بھی اعلامیے کو مسترد کر دیا ہے، جس میں قصوروار فقط ماسکو حکومت کو ٹھہرایا جائے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کا کہنا تھا، ''ہمارے مغربی ساتھیوں نے اعلامیے کو سیاسی رنگ دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ انہوں نے ایسے الفاظ سے چپکے رہنے کی کوشش کی ہے، جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہماری اور پورے جی ٹوئنٹی ممالک کی جانب سے روسی فیڈریشن کے اقدامات کی مذمت کی جاتی ہے‘‘۔
میزبان ملک کی طرف سے اپیل
انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو نے عالمی برادری میں تقسیم بڑھنے سے خبردار کیا ہے۔ اہم ترین اور اُبھرتے ہوئے صنعتی ممالک کے اس اجلاس کے میزبان نے شرکاء سے اپیل کی کہ وہ دنیا کو دو حصوں میں تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔ یوکرین جنگ کے تناظر میں انڈونیشیا کے صدر نے کہا کہ اس جنگ کا خاتمہ ضروری ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو آئندہ نسلوں کے لیے اپنی ذمہ داری کو نبھانا مشکل ہو جائے گا۔
جی ٹوئنٹی سمٹ سے پہلے ہی مغربی اور روسی لیڈر آمنے سامنے
دوسری جانب جرمن چانسلر اولاف شولس نے کہا ہے کہ اگر یوکرین جنگ بند ہو جائے تو دنیا میں جاری کساد بازاری اور خراب معاشی حالات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ دریں اثناء چین اور فرانس نے یوکرین جنگ کی شدت میں فوری کمی لانے پر اتفاق کیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کے حاشیے میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے بھی ملاقات کی ہے۔ ترک صدارتی دفتر نے بالی میں ہونے والی اس ملاقات کی مزید تفصیلات جاری نہیں کیں۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب ترکی نے استنبول بم دھماکے کے بعد امریکی تعزیتی پیغام وصول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ بم دھماکے کی ذمہ دار کرد تنظیم کو امریکی حمایت حاصل ہے۔
ا ا / ک م ( اے ایف پی، روئٹرز)