جی ٹوئنٹی سمٹ سے پہلے ہی مغربی اور روسی لیڈر آمنے سامنے
13 نومبر 2022دو روز بعد انڈونیشیا کے جزیرے بالی پر جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس کا آغاز ہونے والا ہے لیکن اس کے آغاز سے پہلے ہی مغربی اور روسی لیڈروں کے مابین سخت بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
روسی وفد کی قیادت روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کر رہے ہیں۔ فروری میں یوکرین پر حملے کے بعد روسی حکام پہلی مرتبہ کسی ایسے بین الاقوامی ایونٹ میں شرکت کر رہے ہیں۔ قبل ازیں کہا جا رہا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن بھی اس میں شرکت کریں گے لیکن اب انہوں نے اپنی ''مصروفیات کے باعث‘‘ اس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یوکرین اس سربراہی اجلاس کے دوران غلبہ حاصل کرنے کے لیے تیار ہے۔ نہ صرف یوکرینی بلکہ مغربی رہنما بھی ممکنہ طور پر روس کے یوکرین پر حملے کا عوامی سطح پر مقابلہ کریں گے اور ان کی مل کر یہ کوشش ہو گی کہ چین اور بھارت پر بھی دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ روسی حملے کی مذمت کریں۔ ان دونوں ملکوں نے یوکرین جنگ کے حوالے سے خدشات کا اظہار تو کیا ہے لیکن کھل کر روسی حملے کی مذمت نہیں کی۔
ممکنہ نیا اسٹریٹجک اور جیو پولیٹیکل میدان جنگ
کمبوڈیا کے دارالحکومت میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اس خطے میں امریکی اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے واشنگٹن حکومت کی سرزنش کی ہے۔ یہی وہ خطہ ہے، جسے روس اور مغرب دونوں ہی آنے والی دہائیوں میں ایک ممکنہ اسٹریٹجک اور جیو پولیٹیکل میدان جنگ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اس موقع پر روسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا، ''امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی یہاں 'غلبہ‘ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ جو بائیڈن کی انڈو پیسیفک حکمت عملی میں پہلے سے موجود علاقائی تعاون کے ''جامع ڈھانچے‘‘ کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''اس کا واضح مقصد خطے کو مزید مسلح کرنا ہے تاکہ ایشیا پیسیفک میں چین اور روس کے مفادات پر قابو پایا جا سکے۔‘‘
امریکہ اس خطے میں کیا چاہتا ہے؟
آسیان سربراہی اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن بھی شریک ہیں۔ اس دوران انہوں نے امریکہ اور اس خطے کے درمیان جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ کا خاکہ پیش کیا ہے۔ بائیڈن نے جنوب مشرقی ایشیائی رہنماؤں کو بتایا کہ واشنگٹن ایک ' آزاد اور کھلا، مستحکم و خوشحال اور ایک محفوظ‘‘ انڈوپیسیفک بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
نہ ہی امریکہ اور نہ ہی روس جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے 10 رکنی گروپ آسیان کے رکن ہیں لیکن انڈونیشیا میں اگلے ہفتے ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس سے قبل کئی عالمی رہنماؤں نے اس میں شرکت کی ہے۔
جب سے مغرب نے یوکرین پر حملے کے جواب میں ماسکو پر بے مثال پابندیاں عائد کی ہیں، تب سے روس ایشیا کے ساتھ بہت قریبی، اقتصادی، سیاسی اور سکیورٹی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش میں ہے۔
پوٹن نے روس اور چین کو امریکہ اور مغرب کے عالمی تسلط کے خلاف عالمی بغاوت کے علمبرداروں کے طور پر پیش کیا ہے۔ امریکہ چین اور روس کو دو اہم عالمی خطرات کے طور پر پیش کرتا ہے۔
ا ا / ع آ (روئٹرز، اے ایف پی)