1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جے این یو تشدد: پولیس کے کردار پر سوالیہ نشان

7 جنوری 2020

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی معروف یونیورسٹی جے این یو کے طلبہ پر ہونے والے پرتشدد حملے کی ذمہ داری ایک سخت گیر ہندو تنظیم نے قبول کی ہے لیکن دو روز بعد بھی پولیس نے ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا۔

https://p.dw.com/p/3Vqlp
JNU Proteste Studenten Delhi
تصویر: DW/S. Ghosh

اتوار کی شام درجنوں نقاب پوش حملہ آوروں نے یونیورسٹی کیمپس میں گھس کر طلبہ اور اساتذہ کو بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ اس میں طلبہ انجمن کی صدر اویشی گھوش کے سر پر شدید چوٹیں آئی تھیں اور بعض پروفیسر بھی بری طرح سے زخمی ہوئے تھے۔ اس کا الزام حکمراں جماعت بی جے پی سے وابستہ سخت گیر طلبہ تنظیم اے بی وی پی پر عائد کیا گیا تھا۔ لیکن پولیس نے اس سلسلے میں جو کیس درج کیا ہے اس میں متاثرہ اویشی کا نام بھی سر فہرست ہے۔ پولیس کی اس کارروائی پر سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے شدید نکتہ چینی ہو رہی ہے۔

دہلی پولیس وزارت داخلہ  کے ماتحت کام کرتی ہے اور کانگریس پارٹی نے اس کے لیے وزیر داخلہ امیت شاہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ تمام تر واضح ثبوت ہونے کے باوجود اس واقعے کے پچاس گھنٹے بعد بھی ایک شخص کی گرفتاری نہیں ہوئی۔ جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’کیا امیت شاہ کی قیادت میں پولس اتنی ناکارہ ہو گئی ہے۔ تعجب تو اس بات پر ہے کہ حملے میں زخمی ہونے والی متاثرہ ایک لڑکی کے خلاف کیس درج کیا گیا ہے۔ یہ بڑی شرم کی بات ہے۔‘‘

JNU Proteste Studenten Delhi
تصویر: DW/S. Ghosh

سیاسی رہنما اسد الدین اویسی نے بھی پولیس کی اس کارروائی کو غلط بتاتے ہوئے کہا کہ جس لڑکی کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی، پولیس نے اسی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ انہوں نے پولیس پر الزام لگایا کہ پہلے اس نے حملہ آوروں کو کیمپس میں آنے کی اجازت دی پھر انہیں نکلنے کا پورا موقع فراہم کیا گيا، اس کے لیے ذمہ دار کون لوگ ہیں؟ بہت سے دانشوروں اور سماجی کارکنان نے بھی پولیس کے اس رویے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور پولیس کے کردار پر نکتہ چینی ہو رہی ہے۔

ادھر ایک سخت گیر ہندو تنظیم ’ہندو رکشا دل‘ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تنظیم کے صدر بھوپندر تومر کا کہنا ہے کہ جے این یو پر حملے کی وہ پوری ذمہ داری لیتے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ جے این یو ملک مخالف سرگرمیوں کا اڈہ ہے، اسے برداشت نہیں کیا جائےگا اور اس لیے ان کے کارکنان نے طلبہ کو نشانہ بنایا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ تفتیش کر رہی ہے کہ آخر تنظیم کےاس دعوے کی سچائی کیا ہے؟ 

Solidarität mit JNU Studenten Proteste
تصویر: DW/S. Bandopadhyay

ادھر دہلی پولیس نے جواہر لال یونیورسٹی کے سابق سرکردہ طلبہ کے ایک مارچ  کو روک دیا ہے، جو متاثرہ طلبہ کی حمایت میں نکالا گيا تھا۔ اس میں سیتا رام یچوری جیسے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ کئی سرکردہ دانشور شامل تھے لیکن پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی۔

 جے این یو بھارت کی سب سے پروقار یونیورسٹیز میں سے ایک ہے، جہاں کے تعلیم یافتہ مختلف شعبے کے دانشور دنیا بھر میں معروف ہیں۔ گزشتہ برس اقتصادیات کے لیے  نوبل انعام پانے والوں میں ابھیجیت بنرجی نے بھی جے این یو میں تعلیم حاصل کی تھی۔ موجودہ حکومت میں وزير خزانہ نرملا سیتا رمن اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر  جیسے بہت سے دانشور اور سیاسی رہنما اسی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ ان سب نے اس تشدد کی مذمت کی تھی۔

اس دوران مرکزی حکومت کی ایک کمیٹی میں شامل یونیورسٹی کے پروفیسر سی پی چندر شیکھر نے تشدد اور کیمپس کے حالات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے ک اعلان کیا ہے۔ مسٹر شیکھر شعبہ اقتصادیات کے سینیئر پروفیسر ہیں۔ انہوں نے اپنے استعفے میں لکھا ہے کہ ایک ایسے بیانیے کو پختہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس ادارے میں ملک مخالف عنصر کا ہونا سچ ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ جس طرح کے حالات پیدا ہو گئے ہیں، ایسے میں ان کے لیے کام کرنا مشکل ہو گيا ہے۔

ادھر جے این یو میں طلبہ پر ہونے والے تشدد کے خلاف ملکی سطح پر اب بھی مظاہرے جاری ہیں۔ ملک کی زیادہ تر یونیورسٹیز اور اعلی تعلیمی اداروں میں طلبہ نے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ ممبئی میں لوگ گیٹ وے آف انڈيا پر گزشتہ روز سے دھرنے پر بیٹھے تھے جنہیں آج پولیس نے ایک کھلے میدان میں منتقل کر دیا ہے۔ اس مظاہرے میں انوراگ کشیپ اور ضویا اختر جیسے فلم سازوں نے بھی شرکت کی۔