حاملہ خواتین کی کیموگرافی، بچے پر اثرانداز نہیں ہوتی
11 فروری 2012سائنسی جریدے The Lancet Oncology میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دوران زچگی خواتین کی کیموتھراپی ان کے بچوں پر کسی منفی اثر کی حامل نہیں ہوتی۔ یہ تحقیقی رپورٹ جمعے کے روز شائع کی گئی ہے۔
یورپی ماہرین سرطان نے اس حوالے سے 68 خواتین سے پیدا ہونے والے 70 بچوں کا معائنہ کیا۔ یہ خواتین دوران زچگی کینسر کی ادویات کا استعمال کر رہی تھیں۔ ماہرین کے مطابق یہ تمام خواتین زچگی کے 18 ویں ہفتے میں تھیں، جب ان میں کینسر کی تشخیص ہوئی جبکہ ان خواتین کے بچوں کی پیدائش اوسطا 36 ہفتے بعد ہوئی۔
ماہرین نے اس حوالے سے ایسے بچوں جن کی پیدائش کے وقت ان کی مائیں کینسر کے خلاف علاج کروا رہی تھیں کا معائنہ کیا۔ اس حوالے سے نومولود بچوں کے علاوہ 18 ماہ، پانچ، آٹھ، نو، گیارہ اور اٹھارہ سال کے بچوں کا مطالعہ بھی کیا گیا۔ اس مطالعے میں ان بچوں کی عام صحت کے علاوہ ان کی ماؤں کی کیموتھراپی کے بچوں کے اعصابی نظام کو پہنچنے والے کسی ممکنہ نقصان، دل، سماعت اور ذہنی استطاعت کا بھی جائزہ لیا گیا۔
اس مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ان تمام تر جائزوں میں ایسے کسی طرح کے کوئی شواہد نہیں ملے، جس سے یہ ظاہر ہو کہ ماؤں کی کیموتھراپی کا کسی طرح کا کوئی اثر ان بچوں پر پڑا ہے۔
ماہرین کے مطابق ان خواتین میں سے جن ماؤں کے ہاں بچے مقررہ وقت سے پہلے پیدا ہوئے وہ ذہنی طور پر دیگر بچوں کے مقابلے میں کم چست اور توانا تھے۔ تاہم یہ معاملہ تمام ہی بچوں کے ساتھ جڑا ہے کیونکہ عام حالات میں بھی ایسے بچے جو وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں، وہ دیگر بچوں کے مقابلے میں ذہنی طور پر کم چست ہوتے ہیں۔
اس تحقیقی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹروں کو کسی حاملہ ماں کے کینسر کے علاج کے وقت کسی قسم کی پریشانی کی ضرورت نہیں اور انہیں کیموتھراپی کا سوچ کر کسی بچے کی وقت سے پہلے پیدائش کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: عاطف بلوچ