حزب اللہ کے رہنما کی ہلاکت میں ’جاسوس‘ نے کردار ادا کیا، شامی میڈیا
18 ستمبر 2011رپورٹ میں دکھائے جانے والے ایک 35 سالہ شخص ایاد یوسف النعیم نے اعترافی بیان میں کہا کہ اسے اسرائیل نے سن 2006 میں بھرتی کیا تھا جبکہ سن 2008 میں اس کے اسرائیلی معاونین نے اسے شام میں بھیجا تھا۔ اس شخص نے دعویٰ کیا کہ اس نے حزب اللہ کے رہنما کی گاڑی سے متعلق اہم معلومات اسرائیل کو فراہم کیں جبکہ 12 فروری کو مغنیہ کی گاڑی دھماکے سے تباہ ہو گئی۔ سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے اس بیان میں اس شخص نے کہا ’میں نے انہیں گاڑی کا نمبر دیا تھا۔‘
امریکہ کی دہشت گردوں کے حوالے سے جاری کردہ فہرست میں مغنیا کا نام بھی شامل تھا تاہم اسرائیل مغنیہ کی ہلاکت میں اپنے ملوث ہونے کے تمام تر الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے۔
مغنیہ پر الزامات تھے کہ وہ 1983میں بیروت میں امریکی سفارت خانے، امریکی فورسز اور فرانسیسی امن فوجی دستوں پر حملوں میں ملوث تھا۔ ان حملوں میں مجموعی طور پر 350 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ مغنیہ پر 80 کی دہائی میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے اغواء اور قتل کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
اسرائیل نے بھی سن 1994ء میں ایک یہودی مرکز پر حملے میں مغنیہ کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ اس حملے میں 85 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے اس انٹرویو کے بعد کہا گیا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’شام کے خلاف‘ غیر ملکی قوتیں مل کر کام کر رہی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ملک میں بشار الاسد حکومت کے خلاف جاری عوامی مظاہروں میں غیر ملکی قوتیں ملوث ہیں۔
واضح رہے کہ شام میں رواں برس مارچ سے جاری شدید عوامی مظاہروں میں بشار الاسد سے اقتدار سے الگ ہونے اور ملک میں جمہوریت کے حق میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔ ان مظاہرین کے خلاف حکومت فورسز کے کریک ڈاؤن میں اب تک 22 سو سے زائد افراد ہلاک جبکہ ہزاروں دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز لیبیا کے دورے پر گئے ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوآن نے بھی شام میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے بشار الاسد کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: حماد کیانی