1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حقانی نيٹ ورک کو دہشت گرد قرار ديے جانے کے بل پر دستخط

13 اگست 2012

پاکستان میں تجريہ نگار امریکی صدر کی طرف سے افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک کو ’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دیے جانے کے بل پر دستخط کو پاکستان پر اس گروپ کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ بڑھانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/15oyj
تصویر: AP

پاکستانی اور افغان حکام نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ افغانستان کی سلامتی کے مشیر رنگین سپانتا نے پاکستان میں زیر حراست اہم طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کی ہے۔ ایک برطانوی خبر رساں ادارے کے ساتھ بات کرتے ہوئے رنگین سپانتا نے کہا کہ طالبان رہنما سے ملاقات کا مقصد افغان امن عمل سے متعلق ان کی رائے معلوم کرنا تھا۔

سياسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکا نے افغانستان میں طالبان پر قابو پانے کے لیے دو رخی حکمت عملی اختيار کر رکھی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت طالبان دھڑوں کے ساتھ بات چیت بھی جاری ہے تاہم بعض ایسے طالبان جو امریکا کے خیال میں بات چیت پر تیار نہیں، ان کے خلاف طاقت استعمال کی جائےگی۔

پاکستان کے ايک نجی ٹيلی وژن ادارے سے وابستہ معروف اینکر پرسن اور کالم نگار طلعت حسین کا کہنا ہے کہ بظاہر امریکی پالیسی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف پاکستان سے ہر قیمت پر کارروائی چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا ’بالخصوص وہ گروپ جو پاکستان کے قریب سمجھا جاتا ہے اس پر دباؤ بڑھایا جائے اور پاکستان کو مجبور کیا جائے کہ آپ کا جو گروپ ہے اس کے ساتھ ہماری شرائط پر بات چیت کی جائے۔ حقانی نیٹ ورک کو جو دہشت گرد قرار ديے جانے کا معاملہ ہے وہ دباؤ کے زمرے میں آتا ہے اور میرے خیال میں ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ باراک اوباما الیکشن کے سال میں ہیں۔ ان کو اپنی کانگریس اور لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے معاملے پر وہ سمجھوتہ نہیں کر رہے۔‘

Zerstörung von Weltkulturerbe Buddha-Statuen von Bamiyan 2010
تصویر: Getty Images

واضح رہے کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی کے حالیہ دورہ امریکا کے بعد سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں آپریشن پر پاک امریکا اتفاق رائے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ حقانی نیٹ ورک کے خلاف امریکا کی جانب سے کافی عرصے سے کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ امریکی انتظامیہ کے خیال میں حقانی نیٹ ورک سے منسلک طالبان نے پاکستانی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں اور وہ ان پناہ گاہوں سے افغانستان ميں امریکی، نیٹو اور افغان افواج کو نشانہ بناتے ہیں۔

دفاعی تجزیہ نگار ایئر مارشل (ر) شاہد لطیف کا کہنا ہے کہ طالبان، خصوصاً حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے امریکی پالیسی الجھاؤ کا شکار ہے انہوں نے کہا، ’امریکی کمانڈر اعلیٰ سطح پر یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ افغانستان میں ان کو فتح نہیں ملی۔ اسی وجہ سے انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انہيں وہاں بات چیت کے ذریعے ہی مسئلہ حل کرنا ہے۔ جب یہ طے ہو ہی گیا کہ بات چیت کے ذریعے ہی مسئلہ حل کرنا ہے تو پھر یہ ٹارگٹ کرنا اور اس مرحلے پر حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دینا مزید کشیدگی بڑھانے کے مترادف ہے۔‘

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد قرار دینے اور افغان طالبان سے بات چیت کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکا نے سن  2014 میں افغانستان سے انخلاء کے لیے تیاریوں کو حتمی شکل دینا شروع کر دی ہے۔

رپورٹ: شکور رحيم، اسلام آباد

ادارت: عاصم سليم