حقوق نسوان کا عالمی دن
6 مارچ 20098 مارچ 1857 کو نیو یارک کی ٹیکسٹائل ملز میں کام کرنے والی خواتین نے پہلی بار ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہڑتال کی تھی۔ 1908 میں نیو یارک کی اسی فیکٹری میں کام کرنے والی کارکنوں نے کام اور اپنی روز مرہ زندگی کی ابتر صورتحال سے تنگ آکر احتجاجی ہڑتال کی تاہم ان خواتین کو لیبر یونینز اور رائے عامہ کی حمایت سے دور رکھنے کے لئے نیو یارک کی کاٹن فیکٹری کے مالکین نے ان عورتوں کو فیکٹری کے اندر بند کر دیا تھا۔ نا معلوم وجوہات کے سبب اس فیکٹری میں آگ لگ گئی اور 129 خواتین جل کر ہلاک ہوگئیں۔ تب سے 8 مارچ کو ان عورتوں کی یاد میں حقوق نسواں کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے۔
استحصال کی شکار ایسی خواتین جب اپنے حقوق کے لئے اور استحصال کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتی ہیں تو ان پر پر تشدد حملے ہوتے ہیں اور ایسا مغربی معاشروں میں تارکین وطن کارکنوں کی حیثیت سے کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔
گزشتہ سال دسمبر کے ماہ میں کرسمس سے چند روز قبل ایشھنس کی ایک پر رونق شاہراہ پر صفائی کا کام کرنے والی بلغاریہ کی ایک خاتون پر دو اجنبی مردوں نے تیزاب پھینکا اور ان پر حملہ کیا۔
گھر بنانا، اسے سجانا اور اسے بسانا عورت کی فطرت کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ تاہم معاشی، معاشرتی اور کبھی کبھی سیاسی مسائل خواتین کو گھر بار چھوڑ کر تارکین وطن بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایسی عورتیں غیر معاشرے میں اپنی بقا کے لئے روزگار کی متلاشی بھی ہوتی ہیں۔ مغرب میں انہیں تارکین وطن کارکن کہا جاتا ہے۔
جرمنی سمیت بہت سے یورپی معاشروں میں تارکین وطن خواتین کارکنوں کو زیادہ تر صفائی کا کام ہی ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صفائی کا کام کرنے والی ان خواتین کو بہت معمولی اجرت یا مزدوری دی جاتی ہے جو ان عورتوں کو چارو نہ چار تسلیم کرنا پڑتی ہے۔ ایسی ہی بلغاریہ کی ایک خاتون Konstantina Kunevaیونان میں صفائی کا کام کرتی ہیں تاہم یہ اپنی اتنی کم مزدوری اور اپنے اور اپنی جیسی دیگر خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم ہیں اور ایک لیبر یونین کے ساتھ منسلک ہوکر اپنے حق کے لئے آواز بلند کرتی ہیں۔
گزشتہ کرسمس سے دو روز قبل ان پر نا معلوم مردوں نے حملہ کیا اور ان پر تیزاب پھینکا۔ Kuneva تب سے ایتھنس کے ہسپتال میں داخل ہیں تاہم ان پر حملہ کرنے والوں کا کوئی اتا پتہ نہیں ملا ہے۔ Kuneva کے وکیل kOSTAS PAPADAKIS کو اس امر کا یقین ہے کہ Kuneva پر یہ حملہ ان کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ’’Konstantina Kuneva کے کسی کے ساتھ ذاتی اختلافات نہیں تھے۔ اس وجہ سے ان پر ہونے والے حملے کو کسی ذاتی دشمنی کا بدلا میں نہیں سمجھتا۔ میرے خیال میں اس کاروائی کے پیچھے ایسے افراد کا ہاتھ ہے جو لیبر یونین میں سرکردہ افراد خاص طور سے خواتین کے سخت خلاف ہیں۔ ‘‘
بلغاریہ سے تعلق رکھنے والی Konstantina ایک تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ انھوں نے تاریخ کے شعبے میں تعلیم حاصل کی ہے۔ تاہم ان کی تعلیم یونان میں کسی بہتر نوکری کے حصول میں مددگار ثابت نہ ہوسکی۔ اپنے بچے کے لئے ماں اور باپ دونوں بن کر اس کی پرورش کے لئے Kuneva ہر طرح کی چھوٹی موٹی نوکری کر تی رہی ہیں۔ آخری جاب انھوں نے یونان کی ایک بڑی اور معروف صفائی کی فرم ECOMET میں کی۔ وہاں انھوں نے اپنے جیسی بہت سی خواتین جنہیں بہت کم اجرت دی جاتی ہے کہ حقوق کے لئے آواز بلند کی۔ سب سے پہلے انکا جھگڑا ان کے ’باس‘ سے ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ انھوں نے صفائی کا کام کرنے والی تمام خواتین کے لئے کرسمس کے موقع پر بونس کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد انہیں قتل کی دھمکی کے فون آنے لگے۔ تاہم انھوں نے دھمکیوں سے ڈرے بغیر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ آخر کار کرسمس سے دو روز پہلے ان کے ساتھ تیزاب پھینکنے کی بہیمانہ کاروائی کی گئی۔
یونان میں صفائی کرنے والی خواتین کو نہ صرف بہت کم مزدوری دی جاتی ہے بلکہ انہیں ناگفتہ بہ ماحول میں کام کرنا پڑتا ہے۔ ایتھنس کی لیبر یونین کی ایک خاتون سربراہ Stavi Saloufakou کہتی ہیں’’’صفائی کا کام کرنے والی خواتین کو کل 570 یورو ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔ اگرچہ ان کے کام کے اگریمنٹ یا معاہدے میں ایک شق درج ہوتی ہے جس کے تحت ساڑھے پانچ گھنٹوں سے زائد کام کرنے والوں کو کچھ اضافی مزدوری ملنی چاہئے۔ تاہم آجرین یا کام دینے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ساڑھے پانچ گھنٹے سے زائد کام کسی کارکن کے حصے میں نہ آئے۔ بہت سی خواتین انجانے میں غلط معاہدے پر دستخط کر دیتی ہیں کیونکہ انہیں یونانی زبان نہیں آتی ہے۔ یہ عورتیں آٹھ آٹھ ، نو نو گھنٹے کام کرتی ہیں۔ نا تو انہیں اوور ٹائم ملتا ہے نہ ہی رات یا اتوار وغیرہ جیسے چھٹی کے دنوں میں کام کرنے کی اضافی اجرت۔‘‘
یونان میں تارکین وطن کی حیثیت سے کام کرنے والی خواتین نے محنت مزدوری کرنے والی اپنی ہم جنس کارکنوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف جدو جہد کو آگے بڑھانے کا عزم کر رکھا ہے۔
صفائی کا کام کرنے والی ایک یونانی خاتونVlassia Papathanasi کا کہنا ہے’’ہمیں ہر طرح کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ جب ہم نے اپنے حقوق کے لئے عدالت کے دروازے پر دستک دی تو صفائی کی متعدد فرموں کے مالکین اور اعلٰی عہدیداران کی طرف سے ہم پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں۔ ہم ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا تحفظ کرتے رہیں گے۔ ویسے بھی اس کے سوا ہمارے پاس کوئی دوسرا رستہ بھی نہیں ہے۔‘‘
بلغاریہ کے تارکین وطن کارکنوں کے ساتھ یونان میں یورپی یونین کے باشندہ ہونے کے ناطے ماضی کے طرح کا امتیازی سلوک نہیں ہوتا۔ تاہم انہیں قانونی طریقے سے روزگار کے مواقع اب بھی بہت کم میسر ہیں۔
دوسری جانب مشرقی یورپ اورایشیا سے آئے ہوئے غیر قانونی تارکین وطن کارکنوں کے مابین بہت زیادہ Competition یا مقابلہ پایا جاتا ہے۔ اس کے سبب ایسے کارکن بہت کم اجرت کے عوض بھی مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔