حلب پھر آگ اور خون میں نہاتا ہوا
23 اکتوبر 2016شام کے شہر حلب میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیا جانے والا جنگ بندی کا وقفہ کل ہفتہ کے روز مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے ختم ہو گیا تھا۔ وقفہ ختم ہوتے ہی شدید جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جھڑپیں فوری طور پر شروع ہونے سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے باغی اور حکومتی فوج شدت سے شام کے چھ بجنے ہی کے منتظر تھے۔ جمعرات کے روز سے شروع ہونے والے اس فائربندی وقفے میں روس نے یک طرفہ طور پر چوبیس گھنٹے کی توسیع کر دی تھی۔ اس وقفے میں اسد حکومت اور روس نے مزید اضافہ کرنے کا کوئی بروقت عندیہ نہیں دیا تھا۔
فریقین نے ایک دوسرے پر شیلنگ کا سلسلہ پھر شروع کر دیا ہے۔ شامی فوج باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں صلاح الدین اور المشہد پر شیلنگ کر رہی ہے۔ حلب شہر کے ایک اور علاقے شیخ سعید میں بھی جنگ شدت سے جاری ہے۔ اس علاقے پر فضائی حملے بھی کیے گئے ہیں۔ باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں کو شامی فوج توپ خانے سے نشانہ بنا رہی ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اس جنگ بندی وقفے کے دوران بہت کم لوگ حلب سے محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہوئے۔ شام کے حالات و واقعات پر نگاہ رکھنے والی شامی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے بھی تصدیق کی ہے کہ جنگ بندی کے وقفے کے دوران بہت کم لوگوں نے محفوظ مقامات کی جانب منتقلی کا فیصلہ کیا۔
شامی فوج نے مقامی باشندوں کو مشرقی حلب سے باہر جانے کے لیے آٹھ راستے فراہم کیے تھے۔ بہت تھوڑی تعداد میں مشرقی حلب کے محصور افراد صرف ایک ہی راستے سے گزرے جبکہ باقی سات راستے ویران ہی رہے۔ آبزرویٹری کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمان کے مطابق علاقے کی سول کمیٹیوں کے افراد نے علاقے کے محصورین کو قائل کرنے کی بھی کوشش کی کہ وہ اس جنگ بندی وقفے کو غنیمت جانیں اور ادلب کے علاقے کی جانب منتقل ہو جائیں لیکن یہ کوششیں زیادہ تر ناکام رہیں۔ اسی طرح وہاں سے زخمیوں کا انخلاء بھی ممکن نہ ہو سکا۔
شام کے سرکاری میڈیا اور روسی حکام نے مشرقی حلب کے باغیوں پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے سویلین آبادی کو منتقل ہونے سے روکے رکھا کیونکہ وہ انہیں بطور ڈھال استعمال کر رہے ہیں۔ مشرقی حلب سے باغیوں کو پسپا کرنے کے شامی فوجی مشن میں اب تک پانچ سو کے قریب ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی دو ہزار سے زائد ہے۔